اسلام آباد میں تعینات جرمن سفیر مارٹن کوبلر نے خیبرپختونخواہ میں افغان مہاجرین کے ایک مرکز کا دورہ کیا۔ کوبلر اپنے دوروں کی تصاویر کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شئیر کر رہے ہیں۔
اشتہار
اسلام آباد میں جرمن سفارت خانے کے فیس بک پر شائع ہونے والی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جرمن سفیر خیبر پختونخواہ کے علاقے اضاخیل میں اقوام متحدہ کے ادارہء برائے مہاجرین کے اس مرکز میں افغان بچوں کے ساتھ گھل مل رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہء برائے مہاجرین کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ 1.45 ملین مہاجرین رہائش پذیر ہیں جن میں سے زیادہ تر افغان ہیں۔ اسلام آباد میں جرمن سفارت خانے کے فیس بک پر تصاویر کے ساتھ جاری بیان میں لکھا گیا ہے،’’ ہم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ مرکز پاکستانی اور افغان حکام کے ساتھ تعاون کی بہترین مثال ہے۔‘‘
مارٹن کوبلر پاکستانی میڈیا پر کافی زیادہ نظر آرہے ہیں۔ حال ہی میں جرمن سفیر نے پشاور بازار کا دورہ کیا اور راولپنڈی سے گجرانوالہ تک ٹرین پر سفر کیا تھا۔
مارٹن کوبلر نے پشاور میں بار بی کیو کھاتے ہوئے اپنی تصاویر کو ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر بھی کیا۔
سائیکلوں نے دیا لڑکیوں کو ایک نیا اعتماد
پاکستان کے صوبے پنجاب کی تحصیل عارف والا میں جرمن حکومت کے تعاون سے ایک مقامی این جی او اسکول جانے والی طالبات کو بائیسکلز فراہم کر رہی ہے تاکہ وہ پابندی سے اسکول جا سکیں اور ان کی تعلیم میں خلل نہ پیدا ہو۔
تصویر: K. Farooq
لڑکیوں میں خود اعتمادی
اب عارف والا تحصیل کی لڑکیاں ہر روز سائیکل پر اسکول آتی جاتی ہیں۔ سائیکل نے نہ صرف ان کو اعتماد دیا ہے بلکہ گاؤں کی گلیوں، کھیتوں اور سٹرکوں پر سائیکل چلا کر اسکول پہنچنے والی ان بچیوں میں آگے بڑھنے کی امید بھی پیدا کر دی ہے۔
تصویر: Khalid Farooq
لڑکیوں کے والدین بھی خوش
اسکول کی پرنسپل نسیم اشرف کا کہنا ہے کہ اس اسکول میں آس پاس کے دیہات کی بچیاں آتی ہیں، بہت سی لڑکیاں گرمی میں لمبی مسافت پیدل طے کر کے اسکول پہنچتی ہیں۔ سائیکل ملنے کے بعد اب بہت سی لڑکیاں چھٹیاں کم کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے ڈر تھا کہ والدین اپنی بچیوں کو سائیکل نہیں چلانے دیں گے لیکن جب اسکول کی نہایت غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی بچیوں کو سائیکلیں دی گئیں تو والدین بہت خوش ہوئے۔
تصویر: Khalid Farooq
لڑکیاں تو اب موٹر سائیکل بھی چلاتی ہیں
سائیکل ملنے والی ایک بچی رابعہ کے والد جمال دین کہتے ہیں، ’’میری بیٹی سائیکل ملنے سے پہلے رکشے میں اسکول جاتی تھی، اب میری بچت ہو رہی ہے اور میری بیٹی خوشی سے سائیکل پر اسکول جاتی ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا گاؤں میں کچھ افراد اعتراض تو نہیں کرتے کہ لڑکی اکیلے سائیکل چلا کر اسکول جاتی ہے تو جمال دین نے کہا کہ اب تو لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتی ہیں، اگر میری بیٹی سائیکل چلائے تو اس میں کیا عیب ہے۔
تصویر: Khalid Farooq
210 لڑکیوں میں سائیکلیں تقسیم
عارف والا میں ’اَرج ڈیویلپمنٹ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کے نمائندے خالد فاروق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تحصیل عارف والا میں کل 210 سائیکلیں بچیوں کو تقسیم کی گئی ہیں۔ سائیکل دینے سے پہلے والدین کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور ان کی مرضی ہو تو ہی لڑکیوں کو سائیکلیں دی جاتی ہیں۔
تصویر: Khalid Farooq
مسجد کے امام کی بیٹی بھی سائیکل پر
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے مقامی مسجد کے امام قاری محمد افضل سے بھی ان کا موقف جانا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایک لڑکی نہایت گرمی میں روز پیدل چل کر اسکول پہنچتی ہے۔ اگر وہ سائیکل چلا کر اسکول پہنچے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔‘‘ قاری صاحب نے علاقے میں ایک عمدہ مثال ایسے قائم کی ہے کہ ان کی اپنی بیٹی بھی اب سائیکل پر ہی اسکول جاتی ہے۔
تصویر: K. Farooq
روشن مستقبل کی سیٹرھی
ایک بچی کے والد کا کہنا ہے کہ۔’’مجھے احساس ہو گیا ہے کہ غربت سے نکلنے کے لیے مجھے اپنی بیٹی کو پڑھانا ہو گا تاکہ اس کا مستقبل روشن ہو، وہ ہم سے بہتر زندگی گزار سکے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری بیٹی کو دی جانے والی سائیکل صرف آمدورفت کا ذریعہ نہیں ہے، یہ اسے ایک روشن مستقبل کی طرف لے جانے کی سیٹرھی ہے۔‘‘