جرمنی کی دوسری سب سے بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی قدامت پسندوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے موضوع پر داخلی طور پر تقسیم کا شکار ہو گئی ہے۔
اشتہار
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) کے کئی اہم رہنماؤں کی جانب سے چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور باویریا صوبے میں اس کی حلیف جماعت کرسچین سوشل یونین کے ساتھ مل کر حکومت سازی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
جمعے کے روز سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما مارٹن شُلز اور چانسلر میرکل نے طویل ابتدائی مذاکرات کے بعد حکومت سازی کے لیے باقاعدہ مذاکرات پر اتفاق کر لیا تھا۔
میرکل کے مرکزی حریف مارٹن شُلس کا سیاسی کیریئر
سوشل ڈیموکریٹک رہنما مارٹن شلس نے میرکل کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یورپی پارلیمان کی سربراہی چھوڑی تھی۔ تاہم وہ میرکل سے شکست کھا گئے۔ میرکل کے خلاف انتخابات لڑنے والے مارٹن شلس ہیں کون؟
تصویر: Reuters/W. Rattay
یورپی پارلیمان کے سابق اسپیکر
رواں برس کے آغاز تک شلس ایک یورپی سیاستدان تھے۔ وہ یورپی سوشلسٹ بلاک کے سربراہ اور 2012ء سے 2017ء تک یورپی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم اب شلس میرکل کے مقابلے میں چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سے پہلے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے تین امیدوار میرکل کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/Dpa/dpa
ایک متحرک شخصیت
مارٹن شلس کا تعلق ویورزیلین نامی علاقے سے ہے۔ آخن کے قریب واقع اس شہر کی آبادی محض اڑتیس ہزار ہے۔ شلس اب بھی اسی چھوٹے سے شہر میں ہی رہتے ہیں۔ وہ 1987ء سے 1998ء یعنی گیارہ برسوں تک اس شہر کے میئر بھی رہے۔ ان کی کتابوں کی ایک دکان بھی ہے، جو وہ اپنی بہن کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
مارٹن شلس اور ملالہ یوسفزئی
پاکستان میں طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی ملالہ یوسف زئی نے سن دو ہزار تیرہ میں انسانی حقوق کے لیے یورپی پارلیمنٹ کا اعلیٰ ایوارڈ سخاروف پرائز جیتا تھا۔ تب شلس یورپی پارلیمان کے اسپیکر تھے اور انہوں نے ہی یہ ایوارڈ ملالہ کے حوالے کیا تھا۔
تصویر: Reuters
فٹ بالر بننے کا خواب
شلس 1955ء میں ایک پولیس افسر کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ فٹ بالر بننا چاہتے تھے لیکن گھٹنے کی چوٹ نے ان کا خواب چکنا چور کر دیا۔ 1970ء کی دہائی کے وسط میں یعنی بیس سال کی عمر میں وہ ایک برس تک بے روز گار بھی رہے۔ شلس اپنے ماضی پر کھل کر بات کرتے ہیں، ’’میں ایک لاابالی اور بے پرواہ لڑکا تھا اور اچھا طالب علم بھی نہیں تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
سایست میں قدم
شلس 1974 سے ہی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) میں کافی متحرک ہو چکے تھے۔ بتیس سال کی عمر میں جب وہ اپنے شہر کے میئر بنے تو اس وقت وہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں اپنی پارٹی کے سب سے کم عمر ترین رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Sevenich
چانسلرشپ کے لیے امیدوار
جنوری 2017ء میں شلس کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلرشپ کا امیدوار منتخب کیا گیا۔ اس کے فوری بعد اپنے ایک انٹرویو میں شلس نے کہا، ’’مایوسی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔‘‘ ان کے بقول شہریوں کو اگر یہ احساس ہو کہ وہ تو سماج کے لیے کچھ کر رہے ہیں لیکن سماج ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہا اور نہ ہی انہیں عزت دے رہا ہے، تو ان کا مزاج جارحانہ ہو جاتا ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/HMB Media/H. Becker
امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید
سن 2016 میں شلس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ ہیں اور انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کو انہوں نے یورپ میں عوامیت پسندوں سے نتھی کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کو ایک غیر ذمہ دار شخص بھی کہا تھا۔ شلس نے برسلز اور اسٹراس برگ میں بارہا یہ ثابت کیا کہ وہ ایسے موضوعات پر بھی کھل کر اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں، جن کی وجہ سے شاید انہیں جرمنی کی داخلہ سیاست میں تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
انتخابی مہم میں خارجہ پالیسی
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے بارے میں سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان شلس کا کہنا ہے، ’’روس جو کر رہا ہے، وہ بالکل نا قابل قبول ہے۔ روس کے جارحانہ اقدامات کا باہمی احترام کے یورپی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں بھی اپنے انہی خیالات کا برملا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
جیت کے امکانات کم ہیں
تمام جوش و خروش اور ولولے کے باوجود ایسا امکان دکھائی نہیں دیتا کہ شلس چانسلر میرکل کو شکست دے پائیں گے۔ پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کا امیدوار بننے کے بعد جنوری اور فروری میں مختصر مدت کے لیے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت تیزی سے بڑھی تھی۔ فروری میں میرکل کے چونتیس فیصد کے مقابلے میں شلُس کی عوامی مقبولیت پچاس فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم اب الیکشن سے قبل یہ اعداد و شمار بالکل ہی بدل چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
’میں ہی چانسلر بنوں گا‘
عوامی جائزوں میں اپنی پارٹی کی مقبولیت میں کمی کے باوجود شلس بہت پرامید ہیں اور وہ ان ووٹروں کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جو ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں کر سکے کہ 24 ستمبر کو وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ اگست میں انہوں نے نشریاتی ادارے ’زیڈ ڈی ایف‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا، ’چانسلر میں ہی بنوں گا۔‘‘
تصویر: Getty Images/M. Hitij
’جمہوریت ہی واحد راستہ‘
مارٹن شلس کا کہنا ہے کہ ’اگر جمہوریت لوگوں کو تحفظ کا احساس نہیں دے گی تو وہ متبادل تلاش کریں گے‘۔ ناقدین کے مطابق شلس اپنی پارٹی کی مقبولیت میں بہتری کا باعث بنے ہیں لیکن میرکل کو شکست دینا ان کے لیے ایک مشکل کام ہو گا۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Kappeler
اپنی اہلیہ کے ساتھ
مارٹن شلس اور ان کی اہلیہ اِنگے شلس کی گزشتہ برس جرمن شہر آخن میں لی گئی ایک تصویر۔ شلس اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کو اپنی کامیابی کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ مارٹن اور اِنگے شلس دو بچوں کے والدین ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
12 تصاویر1 | 12
اتوار کے روز مشرقی جرمن صوبے سیکسنی انہالٹ میں تاہم سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے ریاستی کنویشن میں اس جماعت کے ارکان نے معمولی اکثریت سے اس اتفاق رائے سے اختلاف کیا۔ ادھر اتوار کے روز برلن شہر کے میئر اور ایس پی ٹی کے رہنما میشایل میولر نے کہا کہ انہیں چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور سی ایس یو کے ساتھ اپنی پارٹی کی اتحادی حکومت کی تشکیل پر ’شدید تحفظات‘ ہیں۔
ایک جرمن اخبار ٹاگیس شپیگل سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ویسا ہی اتحاد اور ویسی ہی پالیسیاں اس صورت حال کا درست حل نہیں ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایس پی ڈی کو اپنے مزید مطالبات منظور کروانے کے لیے ابھی مزید بات چیت کرنا چاہیے۔
جرمن صوبے رائنلنڈ پلاٹینیٹ کے وزیراعلیٰ اور ایس پی ڈی کے رہنما مالو ڈریئر نے بھی قدامت پسندوں کے ساتھ حکومت سازی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ جرمنی میں ستمبر کے اواخر میں ہونے والے عام انتخابات میں چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور باویریا صوبے میں اس کی اتحادی جماعت سی ڈی یو واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے اور انہیں حکومت سازی کے لیے یا تو دو چھوٹی جماعتوں کی ضرورت ہے یا ملک کی دوسری سب سے بڑی جماعت ایس پی ڈی کی حمایت کی۔
جرمن سیاسی بحران، میرکل کے لیے کیا مسائل کھڑے کر سکتا ہے؟
03:18
ایس پی ڈی نے گزشتہ انتخابات کے بعد چانسلر میرکل کے قدامت پسند بلاک کے ساتھ مل کر ایک وسیع تر اتحادی حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی، تاہم اس جماعت کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس طرز کی حکومت سازی سے عوام میں اس جماعت کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
ایس پی ڈی سے اتحادی حکومت کے قیام کے لیے بات چیت سے قبل چانسلر میرکل کے گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے لیے بات چیت کی تھی، مگر وہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔