1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن سیاح بھارت سے بحفاظت وطن واپس

27 مارچ 2020

کورونا وائرس کے مدنظر بھارت میں طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنس جانے والے سینکڑوں جرمن سیاح بحفاظت اپنے وطن پہنچ گئے ہیں۔

Airbus A320-200 der deutschen Fluggesellsschaft Lufthansa
تصویر: picture-alliance/W. Minich

جمعرات اور جمعہ کے روز الگ الگ پروازوں سے پانچ پانچ سو کی تعداد میں جرمنی پہنچنے والے ان لوگوں میں جرمنی کے علاوہ دیگر یورپی ممالک کے شہری اور جرمنی میں کام کرنے والے بھارتی بھی شامل تھے۔

دہلی میں جرمن سفارت خانہ نے بھارت میں پھنس جانے والے اپنے شہریوں کے انخلاء کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مہم چلا ئی۔ جرمن سفارت خانے کے ترجمان ہانس کرسٹیان ونکلر نے بتایا، ”جرمن سفارت خانے میں ایک کرائسس ری ایکشن سینٹر بنایا گیا، جہاں پچاس سے زیادہ افراد تین شفٹس میں کام کر رہے تھے۔ کام بھی آسان نہیں تھا۔ لوگ بھارت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ پہلے ان کا ٹھکانہ معلوم کرنا، ان کی رائے جاننا کہ وہ واپس جانا چاہتے ہیں یا نہیں اور پھر ان کو واپس بھیجنے کی تیار ی کرنا۔ سفارت خانہ نے سب سے پہلے واپس جانے کے خواہش مند افراد کو ایک آن لائن رجسٹر میں اپنا نام، پتہ اور فون نمبر درج کرنے کے لیے کہا۔ پھر تمام انتظامات مکمل ہوجانے کے بعد ان سے رابطہ کیا اور انہیں دہلی آنے کے لیے کہا گیا۔“

انہوں نے  مزید کہا کہ عام حالات میں اس طرح کے کام میں کوئی زیادہ دشواری نہیں ہوتی ہے۔ لیکن عام حالات میں اس طرح کی مہم چلانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ہے۔ کورونا کا یہ دور عام حالات سے یکسر مختلف ہے۔

اس مہم میں درپیش مشکلات کے بارے میں بھارت میں جرمن سفیر والٹر جے لنڈنر بتاتے ہیں”کرفیو کی صورت میں اے 380 طیارہ کی دو رٹرن فلائٹ کا انتظام کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن ہمیں ان مشکل حالات کے باوجود رشی کیش سے 130 سیاحوں کو دہلی لانے میں کامیابی ملی، کچھ سیاحوں کو جے پور سے بھی لایا گیا۔“  لنڈنر کہتے ہیں کہ پولیس اور بھارتی انتظامیہ کے تعاون اور ان کے جرأت مند ساتھیوں کی مدد کے بغیر یہ سب ممکن نہیں تھا۔

جرمن سفیروالٹر جے لنڈنر دہلی میں جرمن سفارت خانہ میں لوگوں کو تسلی دیتے ھوئےتصویر: German Embassy in India

جمعرات اور جمعے کو دہلی سے جرمنی پہنچنے والی دو پروازوں سے پانچ پانچ سو افراد جرمنی لوٹ آئے ہیں۔ ان میں جرمن سیاح، طلبہ، جرمنی میں رہنے اور کام کرنے والے بھارتی شہری اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے کچھ شہری بھی تھے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ کورونا وائرس کی وبا جس تیزی سے پھیل رہی ہے اس کے مدنظر جرمن حکومت بیرونی ملکوں میں موجود اپنے شہریوں کے تئیں شروع سے ہی کافی فکر مند تھی اور ان کو واپس لانے کی تیاری شروع کردی تھی۔ حالانکہ جرمن سفارت خانوں نے ایسے لوگوں کو اپنے وطن فوراً واپس لوٹ جانے کی وارننگ دینی شروع کردی تھی لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں تھا۔

تقریباً دو لاکھ جرمن بیرون ملک موجود تھے جنہیں واپس لانا تھا۔ جرمن شہریوں کو واپس لانے کی مہم شروع کرنے کے بعد سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ شہری جرمنی پہنچ چکے ہیں۔

جرمن سیر سپاٹے کے کافی شوقین ہوتے ہیں۔ سیاحت کے معاملے میں انہیں ورلڈ چیمپئن کہا جاتا ہے۔کورونا وائرس کی وبا اتنی تیزی سے پھیلی کہ وہ دنیا کے مختلف علاقوں میں پھنس گئے۔ مصر میں چھٹیاں گزارنے والے دو جرمنوں کی تو کورونا کی وجہ سے موت بھی ہوگئی۔

بھارت میں حکومت نے کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوشش میں جرمنی اور کچھ دیگر یورپی ملکوں کے شہریوں کا ویزا رد کردیا۔ پھر ان ملکوں کے شہریوں اور یہاں رہنے والے بھارتی نژاد لوگوں کے بھارت آنے پر پندرہ اپریل تک پابندی لگا دی تھی۔ اس کے بعد جب کورونا کے معاملے میں تیزی آنے لگی تو جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا نے اپنی پروازیں منسوخ کردیں۔

وطن روانگی سے قبل جرمن سفارت خانہ میں یوگا کرتے ہوئےتصویر: Ajay Sharma

 پھر ایئر انڈیا نے اپنی پروازیں منسوخ کیں اور اس کے بعد بھارت اور جرمنی دونوں نے ہی اپنی اپنی سرحدوں کو سیل کردیا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ بھارت کے مختلف علاقوں میں موجود جرمن پھنس گئے۔ وہ نہ تو بھارت میں کہیں جا سکتے تھے اور نہ ہی بھارت سے باہر نکلنا ان کے لیے ممکن تھا۔

دہلی اور اطراف میں موجود لوگ تو جرمنی پہنچ گئے ہیں لیکن ممبئی اور چینئی جیسے شہروں کے اطراف میں رہنے والے کئی ہزار افراد اب بھی بھارت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے واپسی کے لیے اپنا نام رجسٹر کرایا تھا لیکن سفارت خانہ ان سے رابطہ نہیں کر سکا۔ جرمن سفارت خانہ کا کرائسس ری ایکشن سینٹر اب باقی بچے لوگوں کی واپسی کی تیاری میں مصروف ہوگیا ہے۔

مہیش جھا/ (ترجمہ:جاوید اختر، دہلی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں