جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی رہنما ہنگری کے دورے پر
13 فروری 2025
ہنگری کے وزیر اعظم نے انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت کی رہنما ایلس وائیڈل کی میزبانی کی اور انہیں ’جرمنی کا مستقبل‘ قرار دیا۔ وائیڈل نے کہا کہ ان کی جماعت اگر جرمن حکومت میں شامل ہوئی، تو اس کا ماڈل ہنگری ہو گا۔
اوربان نے اس موقع پر کہا کہ اب پوری طرح سے واضح ہے کہ اے ایف ڈی مستقبل ہے اور اگر اس جماعت کی پالیسیاں جرمنی میں نافذ کی جاتی ہیں، تو اس سے ہنگری کو فائدہ ہوگا تصویر: Attila Kisbenedek/AFP/Getty Images
اشتہار
ہنگری کے قوم پسند وزیر اعظم وکٹر اوربان نے بدھ کے روز دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی رہنما ایلس وائیڈل کی میزبانی کی اور ان کی حمایت کرتے ہوئے انہیں ’’جرمنی کا مستقبل‘‘ قرار دیا۔
ایلس وائیڈل 23 فروری کو ہونے والے جرمن وفاقی انتخابات میں اپنی جماعت کی طرف سے چانسلرشپ کی امیدوار ہیں اور دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات جرمنی میں انتخابات کے انعقاد سے محض چند روز قبل ہوئی ہے۔
وائیڈل سے ملاقات کے بعد اوربان نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ’’آج میں نے جرمنی کے مستقبل سے ملاقات کی۔ چیئرپرسن ایلس وائیڈل بوڈاپیسٹ میں آپ کا استقبال کرنا اعزاز کی بات ہے۔‘‘
وائیڈل کو دعوت اوربان کی سیاست میں تبدیلی کی نشانی
اوربان نے وائیڈل کو ہنگری کی پرتعیش کارمیلائٹ خانقاہ میں مدعو کیا تھا، جو ہنگری کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ ہے۔
وائیڈل کی میزبانی اوربان کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ گرچہ دونوں کے نظریات امیگریشن جیسے مسائل پر ہم آہنگ ہیں اور دونوں کا ماننا ہے کہ یورپی یونین اپنے رکن ممالک کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے، لیکن اس کے باوجود اوربان نے اب تک اے ایف ڈی سے ایک فاصلہ برقرار رکھا ہوا تھا۔
اب چونکہ انہوں نے یہ تفریق بھی ترک کر دی ہے، تو یہ اس جانب ایک غیر معمولی اشارہ ہے کہ اب وہ جرمنی میں ایک ایسی سیاسی پارٹی سے قریب ہو رہے ہیں، جس کا ساتھ ہونا زیادہ تر جرمن سیاست دان اپنے لیے پریشانی کا سبب سمجھتے ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران وائیڈل نے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر انتخابات کے بعد اے ایف ڈی جرمن حکومت میں شامل ہوتی ہے تو، وہ ہنگری کے راستے پر چلے گیتصویر: Attila Kisbenedek/AFP/Getty Images
اپنی ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اوربان نے کہا کہ اب جرمنی میں اے ایف ڈی کو اتنی حمایت حاصل ہے کہ دوسری پارٹیاں ان کے ساتھ تعاون کرنے کے امکان پر غور کر سکتی ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ جرمنی کی دیگر تقریباﹰ سبھی سیاسی جماعتوں نے واضح کیا ہے کہ وہ اے ایف ڈی کے ساتھ کوئی حکومتی اتحاد نہیں بنائیں گی۔
وزیر اعظم اوربان نے اس موقع پر کہا، ’’یہ مکمل طور پر اب واضح ہے کہ اے ایف ڈی مستقبل ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ امیگریشن سے معیشت تک، انتہائی دائیں بازو کی اس جماعت کا اگر ایجنڈا جرمنی میں نافذ کیا جائے تو وہ ’’ہنگری کے لیے فائدہ مند‘‘ ثابت ہو گا۔
بوڈاہیسٹ میں اس ملاقات کے بعد اے ایف ڈی کی رہنما ایلس وائیڈل نے ہنگری کو اپنی پارٹی کے لیے ایک ماڈل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملک ’’ہمارے لیے، جرمنی کے متبادل کے طور پر، منطقی علامت اور خود مختاری نیز آزادی کی علامت بھی ہے۔ میں اپنے ملک کے لیے بھی یہی چاہوں گی۔‘‘
انہوں نے ہنگری کے غیر قانونی ترک وطن کے خلاف مضبوط کردار کی اور یورپ میں ماحولیاتی تحفظ کی پالیسی کے ناقد کے طور پر بھی تعریف کی۔
پریس کانفرنس کے دوران وائیڈل نے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر 23 فروری کو ہونے والے جرمن قومی الیکشن کے بعد اے ایف ڈی کسی مخلوط جرمن حکومت کا حصہ بنی، تو ’’ہم اپنے ماڈل ہنگری کے راستے پر چلیں گے۔‘‘
حالیہ عوامی جائزوں کے مطابق جرمن ووٹروں میں اے ایف ڈی تقریباً 20 فیصد حمایت کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم دیگر جماعتوں کی حمایت کے بغیر اے ایف ڈی کا کسی مخلوط حکومت میں شامل ہونے کا کوئی حقیقت پسندانہ طریقہ کار ابھی تک نظر نہیں آتا۔
ص ز/ ج ا، م م (اے پی، ڈی پی اے)
جرمن انتخابات 2025ء: چانسلرشپ کا امیدوار کون کون؟
جرمنی میں تیئیس فرورری کے عام انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے لیے امیدواروں کے بارے میں جاننے کے لیے دیکھیے ڈی ڈبلیو کی یہ پکچر گیلری۔ #BTW2025 جرمن_انتخابات_2025#
تصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
اولاف شولس ، ایس پی ڈی (پیدائش: انیس سو اٹھاون)
سوشل ڈیموکریٹ شولس کے پاس کبھی بھی خود اعتمادی کی کمی نہیں رہی، وہ خود کو ایک مؤثر اور باشعور عملیت پسند رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی لاء فرم چلائی، اور پھر عشروں پر محیط اپنے سیاسی کیریئر میں ہیمبرگ میں حکومتی عہدوں سمیت وفاقی سطح پر وزیر محنت، وزیر خزانہ اور وفاقی جرمن چانسلر کے اہم ترین عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔ لیکن اب انہیں رائے عامہ کے جائزوں میں کم عوامی مقبولیت حاصل ہے۔
تصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
فریڈرش میرس، سی ڈی یو (پیدائش: انیس سو پچپن)
قدامت پسند میرس گزشتہ نصف صدی میں جرمنی میں چانسلرشپ کے لیے سب سے عمر رسیدہ امیدوار ہیں۔ مغربی جرمنی کے دیہی زاؤرلینڈ سے تعلق رکھنے والے کٹر کیتھولک اور کاروباری امور کے وکیل میرس کے پاس کبھی کوئی عوامی عہدہ نہیں رہا۔ ان کا نجی کمپنیوں میں ملازمت کا ایک طویل کیریئر ہے، جس میں اثاثہ جات کے انتظامات کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشن، بلیک راک میں ایک عہدے پر فرائض کی انجام دہی بھی شامل ہے۔
تصویر: Ruffer/Caro/picture alliance
رابرٹ ہابیک، گرینز (پیدائش: انیس سو انہتر)
ہابیک اپنے مخصوص ہیئر اسٹائل اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ عوامی شخصیت دکھائی دیتے ہیں۔ اس عملیت پسند سیاست دان کو اپنی غلطیاں تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ یہ ہابیک ہی تھے، جنہوں نے عوام کے سامنے حکومتی سیاسی فیصلوں کی وضاحت کرنے اور اپنے حکومتی شراکت داروں کے تکبر زدہ تشخص کو ختم کرنے کے لیے سادہ اور دلکش الفاظ تلاش کیے تھے۔ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے قبل وہ ایک مصنف، مترجم اور فلسفی رہے ہیں۔
تصویر: appeler/dpa/picture alliance
ایلیس وائیڈل، اے ایف ڈی (پیدائش انیس سو اناسی)
جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی ) کی شریک چیئر پرسن وائیڈل نے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، چین میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کی اور یورو اور نیٹو کے بارے میں شکوک و شبہات سے کام لیتی ہیں۔ وائیڈل اشتعال انگیزی اور خاص طور پر تارکین وطن کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کے لیے مشہور ہیں۔
سابق وزیر خزانہ لنڈنر نے سیاسیات کی تعلیم حاصل کی، اپنے چھوٹے سے تشہیری کاروبارکی بنیاد رکھی اور وہ جرمن فضائیہ میں ایک ریزرو افسر بھی ہیں۔ وہ صرف 34 سال کی عمر میں اپنی نیو لبرل فری ڈیموکریٹ پارٹی کے چیئرمین بنے اور ابھی تک اس کے بلامقابلہ رہنما ہیں۔ ان کی شہرت سوشل میڈیا کے ماہر اور اسٹائلش انسان کے طور پر ہے اور وہ اسپورٹس کاروں سے اپنی محبت کے لیے جانے جاتے ہیں۔
تصویر: Hannes P Albert/dpa/picture alliance
سارہ واگن کنیشت، بی ایس ڈبلیو (پیدائش: انیس سو انہتر)
واگن کنیشت لیفٹ پارٹی کی ایک سابقہ سرکردہ شخصیت ہیں۔ وہ اکثر ٹاک شوز میں بطور مہمان شرکت کرتی ہیں اور عوامیت پسندانہ بیان بازی کی ماہر ہیں۔ وہ دوسرے سیاست دانوں کو احمق اور منافق قرار دیتی ہیں۔ وہ قدامت پسند سماجی اور بائیں بازو کی معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ تارکین وطن مخالف پوزیشنوں کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ اپنی جماعت ’الائنس سارہ واگن کنیشت‘ پر مکمل غلبہ رکھتی ہیں۔
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
ژان فان آکن، لیفٹ پارٹی (پیدائش: انیس سو اکسٹھ)
فان آکن مغربی جرمنی میں پیدا ہوئے، انہوں نے حیاتیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور 2004ء سے 2006ء تک اقوام متحدہ کے لیے حیاتیاتی ہتھیاروں کے انسپکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ وہ 2009 ء سے 2017 ء تک جرمن پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں لیفٹ پارٹی کے قانون ساز بھی رہ چکے ہیں۔ وہ بائیں بازو کی اس جماعت کے شریک چیئرمین بھی رہے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔