جرمن شہروں میں مہاجرین کی شکایات کے لیے خصوصی محتسب
شمشیر حیدر مانسی گوپالا کرشنا
12 اگست 2017
جرمن مہاجر کیمپوں میں مقیم تارکین وطن اور رضاکاروں کو اکثر تشدد، جنسی طور پر حراساں کیے جانے اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے کیسوں کا جائزہ لینے کے لیے کئی شہروں میں خصوصی محتسب تعینات کیے گئے ہیں۔
اشتہار
جرمنی کی کئی وفاقی ریاستوں اور شہروں کی جانب سے تعینات کیے گئے یہ محتسب تارکین وطن یا رضاکاروں کی کسی حکومتی اہلکار کے خلاف شکایات کا جائزہ لے کر فیصلے کرتے ہیں۔ جرمنی میں مقیم مہاجرین ایسے خصوصی محتسب کے دفتر میں اپنی شکایات جمع کرا سکتے ہیں۔
جرمن شہر کولون میں بھی مہاجرین کی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی محتسب تعینات کیا گیا ہے، جہاں مہاجرین، رضاکار اور حکومتی اہلکار اپنی شکایات جمع کرا سکتے ہیں۔ کولون میں مہاجرین کے امور کے لیے تعینات اس خصوصی محتسب کے دفتر سے فون پر رابطہ کر کے یا محتسب سے ملاقات کر کے بھی پناہ گزینوں کے مرکز میں پیش آنے والے کسی واقعے کی شکایت درج کرائی جا سکتی ہے۔
خصوصی محتسب کا دفتر آزادانہ طور پر کام کرتا ہے اور ان کا کسی بھی طور سے شہر کی انتظامیہ یا مہاجرین کی پناہ گاہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔یہ محتسب آزادانہ طور پر ان شکایات کا جائزہ لیتے ہیں۔
یہ دفاتر تشدد، امتیازی سلوک، جنسی طور پر حراساں کیے جانے سمیت انسانی وقار کے منافی کسی بھی طرح کے اقدام کے بارے میں شکایات وصول کرتے ہیں۔ تارکین وطن یا مہاجرین کے مراکز میں کام کرنے والے رضاکار اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بھی شکایت کر سکتے ہیں اور عام طور پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے شکایت کنندہ کی شناخت مخفی رکھی جاتی ہے۔
یہ محتسب کسی مہاجر کی شکایت پر انتظامیہ کو اس بارے میں جائزہ لینے کا حکم بھی دے سکتے ہیں اور بعض صورتوں میں محتسب خود بھی مہاجرین کے مراکز کا دورہ کر کے درکار تبدیلیوں کی بابت حکم جاری کرتے ہیں۔کولون شہر میں خصوصی محتسب کے دفتر کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
ہیمبرگ میں مہاجرین کے لیے خصوصی محتسب
ہیمبرگ میں بھی مہاجرین کی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے ایک خاتون محتسب تعینات ہیں۔ ہیمبرگ میں خصوصی محتسب سے رواں برس یکم جولائی سے کام کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ دفتر اگلے دو برس تک اپنا کام جاری رکھے گا۔
مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟
01:50
یہاں بھی مہاجرین اپنی رہائش گاہ اور جرمنی میں معاشرتی انضمام جیسے امور سے متعلق شکایات درج کرا سکتے ہیں۔ خاتون محتسب آزادانہ طور پر ان شکایات کا جائزہ لیتی ہیں اور اس ضمن میں کوئی فیس بھی طلب نہیں کی جاتی۔
ہیمبرگ میں قائم خاتون محتسب کا دفتر اسی صورت میں متحرک ہوتا ہے جب شہری انتظامیہ متعلقہ معاملے کو حل نہ کر پائے۔ یہ دفتر غیر ملکیوں سے متعلق قوانین کے بارے میں شکایات وصول نہیں کرتا۔
ہیمبرگ میں مہاجرین کے لیے بنائے گئے خصوصی محتسب کے دفتر سے رابطہاس لنک لنک کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
باڈن ورٹمبرگ میں خصوصی محتسب کا دفتر
وفاقی جرمن ریاست میں بھی مہاجرین کی شکایات کے ازالے کے لیے خصوصی محتسب تعینات کیا گیا ہے۔ خصوصی محتسب کا دفتر صوبائی دارالحکومت اشٹٹ گارٹ میں واقع ہے۔ محتسب کے اس خصوصی دفتر میں نہ صرف مہاجرین اور رضاکار بلکہ پناہ گزینوں کے مراکز کے قریب رہنے والے دیگر شہری بھی اپنی شکایات درج کرا سکتے ہیں۔
یہ محتسب دفتر آزادانہ طور پر شکایات کا جائزہ لینے کے بعد تجاویز پیش کرتا ہے تاہم ان کے پاس فیصلہ سازی کے اختیارات نہیں ہیں۔ آپ باڈن ورٹمبرگ کے خصوصی محتسب کے دفتر سےاس لنک پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘