جرمن شہريوں کی سوچ و نظريات: حقيقت کيا، افسانہ کيا؟
3 اکتوبر 2018
دیوار برلن تیس برس قبل منہدم ہوئی تھی۔ جرمنی 1990ء میں ایک ہوا تھا۔ جرمنی میں 83 ملین افراد رہتے ہیں، جن میں مقامی باشندے، نئے آنے والے اور تارکین وطن شامل ہیں۔ کیا ان میں اور ان کی خصوصیات میں کوئی فرق ہے؟
اشتہار
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ویسٹ فیلیا کے لوگ ضدی، شمالی جرمنی کے شہری کم گو اور باویریا میں رہنے والے فطرتاً سخت مزاج ہوتے ہیں۔ جرمنی کے مختلف علاقوں میں بسنے والوں کی مختلف خصوصیات بیان کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر ڈاگمار ہینزل لوگوں کی خصوصیات سے متعلق سوالات کے جوابات دینے میں ماہر ہیں۔ وہ جرمن شہر بون میں عوامی حکایات اور علاقائی تاریخ کے حوالے سے قائم ایک ادارے سے منسلک ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جرمنی کے مختلف خطوں اور شہروں میں بسنے والوں کی مختلف خصوصیات بیان کی جاتی ہیں۔ ان کے بقول ’اسٹیریو ٹائپس‘ ہمیشہ عام تاثر کی عکاسی کرتے ہيں۔ مثال کے طور پر آپ کچھ واقعات یا شاید ایک واقعے کی بنا پر تمام لوگوں کو ایک جیسا سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں سیاسی طور پر دائیں بازو کے نظریات رکھنے کی وجہ سے آپ ریاست سیکنسی کے تمام لوگوں کو دائیں بازو کا شدت پسند قرار نہیں دے سکتے۔
جرمن شہریوں کی غربت کی کہانیاں
بے گھر، کھانے پینے میں بچت اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جرمنی میں ہر تیسرا شہری غربت سے متاثر ہے۔ ایسے افراد کی کہانیاں تصویروں کی زبانی۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بھوک کے خلاف جنگ
بریمن میں تین ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنہوں نے غربت اور بھوک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ادارے سپر مارکیٹوں اور بیکریوں سے بچا ہوا کھانا اور اشیائے ضرورت جمع کر کے ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایک تنظیم ہر روز قریب سوا سو افراد کو کھانا مہیا کرتی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
نسلی تفریق سے بالاتر
جرمن شہر ایسن میں ایک نجی تنظیم نے غیر ملکی افراد کو مفت خوراک مہیا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر شدید تنقید سامنے آنے کے بعد انہیں فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ بریمن میں سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے غریب افراد کی مدد کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بوڑھے بھی پیش پیش
اسی سالہ ویرنر ڈوزے رضاکارانہ طور پر غریبوں کو خوراک مہیا کرنے والی تنظیم بریمنر ٹافل کے لیے کام کرتے ہیں۔ کئی افراد ایک یورو فی گھنٹہ اجرت کے عوض اور بہت سے رضاکار طالب علم بھی ’غربت کے خلاف جنگ‘ کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
ہالے میں اجڑے گھر
مشرقی جرمنی میں ہالے شہر کی رونقیں قابل دید تھیں لیکن اب ہالے نوئے اسٹڈ کا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہالے میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے اور روزگار ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
محروم طبقے کی مدد
ہالے میں محروم ترین طبقے کی مدد کے لیے انہیں کم داموں پر اشیائے خورد و نوش اور کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ’سوشل مارکیٹوں‘ میں محروم ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور معمر افراد کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اشیا فراہم کی جاتی ہیں لیکن غریب ترین جرمن شہر ہالے میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’زیادہ تر خریدار غیر ملکی‘
یہ تصویر ایک ایسے اسٹور کی ہے جہاں گھر کی اشیا سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسٹور کے ملازم کا کہنا ہے کہ خریداروں کی اکثریت غیر ملکیوں اور مہاجرین کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول غریب جرمن شہری شاید استعمال شدہ اشیا خریدنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غربت میں پروان چڑھتے بچے
جرمنی میں قریب ایک ملین بچے غربت کا شکار ہیں۔ ایسے بچے نہ تو سالگرہ کی تقریبات منا پاتے ہیں، نہ کھیلوں کے کلبوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر ساتواں بچہ حکومت کی فراہم کردہ سماجی امداد کا محتاج ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’کوئی بچہ بھوکا نہ رہے‘
’شنٹے اوسٹ‘ نامی ایک تنظیم چھ سے پندرہ برس عمر کے پچاس بچوں کو اسکول کے بعد کھانا مہیا کرتی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر بیٹینا شاپر کہتی ہیں کہ کئی بچے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کے لیے بھی گرم کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ اس تنظیم کی خواہش ہے کہ کوئی بچہ گھر بھوکا نہ جائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’ہم ایک خاندان ہیں‘
بیٹینا شاپر کا کہنا ہے کہ ضرورت مند بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن میں مہاجر بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی تنظیم بچوں کو کھانا مہیا کرنے کے علاوہ ہوم ورک اور روز مرہ کے کاموں میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔ دانت صاف کرنے کا درست طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بڑھتی تنہائی
ایک اندازے کے مطابق قریب چھ ہزار بے گھر افراد برلن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ساٹھ فیصد بے گھر افراد غیر ملکی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بے گھروں کے چکنا چور خواب
ایک حادثے میں یورگ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ گزشتہ چھ برس سے بے گھر ہے۔ یورگ کا کہنا ہے کہ برلن میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد میں آپسی مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تعمیر کے فن میں مہارت رکھنے والے اڑتیس سالہ یوگ کی خواہش ہے کہ کسی دن وہ دوبارہ ڈرم بجانے کے قابل ہو پائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
12 تصاویر1 | 12
سوال: آج کل جرمنی میں غیر ملکیوں کی آمد پر شدید بحث جاری ہے۔ باہر سے آنے والا کس طرح معاشرے میں ضم ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر ڈاگمار ہینزل: میرے خیال میں کسی بھی تارک وطن کو سب سے پہلے جرمن زبان سیکھنی چاہیے۔ یہی وہ کنجی ہے، جس کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں کے دروازے کسی بھی غیر ملکی کے لیے کھلتے ہیں۔ ہم آہنگی اسی وقت اچھے طریقے سے پیدا ہوتی ہے، جب غیر ملکی اور مقامی شہری ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اور اختلافات پر بحث کی جاتی ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں جرمنی میں جمہوریت کی اصل اقدار اور ماضی کو نہ بھلانے کی روایت قائم ہو چکی ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جو جرمنی کو دیگر یورپی ممالک سے کچھ حد تک ممتاز بناتی ہے۔
تارکین وطن خواتین کا انضمام، کھیل اور ورک آؤٹ کے ساتھ