جرمن شہریت کی درخواست کے بعد اوسط انتظار ایک سال سے زائد تک
3 اپریل 2023
جرمنی میں ملکی شہریت کے لیے درخواست دہندہ غیر ملکیوں کو شہریت ملنے سے پہلے اوسطاﹰ ایک سال سے زائد تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہ بات ایک تازہ میڈیا سروے سے پتہ چلی۔ کئی شہروں میں تو انتظار کا اوسط عرصہ ڈیڑھ سال تک بنتا ہے۔
اشتہار
برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق میڈیا سروس 'اِنٹیگریشن‘ کی طرف سے مکمل کرائے گئے اس جائزے کے نتائج سے پتہ چلا کہ جرمنی میں طویل عرصے تک قانونی قیام کے بعد مقامی شہریت کی درخواست دینے والے غیر ملکیوں کو، جن کے پاس اس یورپی ملک میں قیام کا لامحدود حق بھی ہوتا ہے، ضروری کارروائی کی تکمیل کے لیے اوسطاﹰ فی کس ایک سال سے زائد تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
کئی شہروں میں یہی مدت ڈیڑھ سال تک
کئی جرمن شہروں میں تو اس کارروائی میں اتنی دیر لگ جاتی ہے کہ اس کی تکمیل شہریت کی درخواست دیے جانے کے بعد اوسطاﹰ ڈیڑھ سال تک کے عرصے میں ممکن ہوتی ہے۔ ایسے شہروں میں آخن، بریمن، کارلسروہے اور شٹٹ گارٹ سر فہرست ہیں۔
جن شہروں میں جرمن شہریت کی درخواست دیے جانے کے تقریباﹰ ایک سال بعد درخواست دہندہ غیر ملکیوں کو جرمن پاسپورٹ اور دیگر تمام شہری حقوق مل جاتے ہیں، ان میں آؤگسبرگ، ایسن، ہیمبرگ، میونخ اور میونسٹر نمایاں ہیں۔
اس کے برعکس جرمن شہر کیمنٹس میں صورت حال ایسی ہے کہ وہاں اس مدت کی طوالت کے بارے میں کوئی پیش گوئی مشکل ہی سے کی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ وہاں کسی بھی درخواست دہندہ غیر ملکی کی طرف سے جرمن شہریت کی درخواست دیے جانے اور اسے دستاویزی طور پر تمام شہری حقوق مل جانے کا درمیانی عرصہ چھ ماہ سے لے کر تین سال تک بھی ہو سکتا ہے۔
اب تک زیر التوا درخواستوں کی تعداد
جرمنی یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی مجموعی آبادی تقریباﹰ 83 ملین بنتی ہے۔ اس وقت پورے ملک میں غیر ملکیوں کی طرف سے دی جانے والی جرمن شہریت کی ایسی درخواستوں کی کُل تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد بنتی ہے، جن پر حکام کی طرف سے کارروائی جاری ہے۔
گزشتہ برس جرمن شہریت حاصل کرنے کے لیے 2021ء کے مقابلے میں غیر ملکیوں کی طرف سے سب سے زیادہ درخواستیں کولون اور ڈریسڈن کے شہروں میں دی گئیں۔ ان دونوں شہروں میں 2022ء میں 2021ء کے مقابلے میں ایسی درخواستوں کی تعداد دو گنا ہو گئی تھی۔
بِیلےفَیلڈ وہ واحد شہر تھا، جہاں پچھلے سال اس سے ایک برس پہلے کے مقابلے میں ایسی درخواستوں کی تعداد بڑھ کر تین گنا ہو گئی۔
ڈیٹا کے حصول کا طریقہ
اس قومی جائزے کے لیے جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلقہ امور کے ذمے دار اور سب سے زیادہ آبادی والے شہروں میں قائم 23 علاقائی دفاتر کے حکام سے تفصیلی معلومات حاصل کی گئیں۔ ان دفاتر کے اعلیٰ حکام سے یہ دریافت کیا گیا تھا کہ ان کے ہاں کتنے غیر ملکیوں نے سالانہ بنیادوں پر جرمن شہریت کے لیے درخواستیں دیں اور ان پر ضروری سرکاری کارروائی کی تکمیل میں اوسطاﹰ کتنا عرصہ لگا۔
ساتھ ہی ان دو درجن کے قریب علاقائی دفاتر سے یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ ان کے ہاں جرمن شہریت کی درخواستیں دینے والے مقامی غیر ملکیوں کا تناسب اوسطاﹰ کتنا رہتا ہے اور اگر اس عمل میں کافی تاخیر ہو جاتی ہے، تو اسے مزید تیز رفتار بنانے کے لیے کس طرح کے اقدمات کیے جا رہے ہیں۔
اشتہار
گزشتہ برس کتنے غیر ملکیوں نے جرمن شہریت لی
2022ء میں پورے جرمنی میں تقریباﹰ ایک لاکھ 31 ہزار 600 غیر ملکیوں نے جرمن شہریت حاصل کی۔ ان میں سے سب سے زیادہ تعداد میونخ کے رہائشیوں کی تھی، جن کے بعد بالترتیب ہیمبرگ، کولون، ڈسلڈورف، فرینکفرٹ اور بریمن کے رہائشی غیر ملکی باشندے رہے۔
جرمنی نے ساٹھ برس قبل ملک میں تربیت یافتہ مزدوروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ترک ’مہمان مزدوروں‘ کو بھرتی کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ جرمنی کے روہر میوزیم میں ترک باشندوں کی زندگی کے بارے میں ایک نمائش پیش کی جا رہی ہے۔
بون اور انقرہ کے درمیان سن 1961 میں ترک ملازمین کو بھرتی کرنے کے معاہدے کے بعد سے سن 1973 میں بھرتیاں بند ہونے تک ترکی سے 10 لاکھ سے زائد ’مہمان مزدور‘ جرمنی آئے تھے۔ آج ترک کمیونٹی، جرمنی میں سب سے بڑی نسلی اقلیتی برادری ہے۔
جرمنی کو 1950ء کی دہائی میں تیزی سے معاشی ترقی کی وجہ سے تربیت یافتہ مزدوروں کی کمی کا سامنا تھا، خاص طور پر زراعت اور کان کنی کے شعبوں میں۔ ڈوئسبرگ کی والزم کان میں کام کرنے والے دو کان کن اپنی شفٹ مکمل کرنے سے قبل ایک گاڑی میں بیٹھے ہیں۔
سن 1990 میں استنبول میں مقیم فوٹوگرافر ایرگُن چاتائے نے جرمن شہر ہیمبرگ، کولون، برلن اور ڈوئسبرگ میں ترک نژاد افراد کی ہزاروں تصویریں کھینچی تھی۔ روہر میوزیم میں ایک خصوصی نمائش کے حصے کے طور پر ’’ہم یہاں سے ہیں: 1990ء میں ترک جرمن زندگی‘‘ کے عنوان سے یہ تصاویری نمائش پیش کی جا رہی ہے۔
سن 1989 میں دیوار برلن کے انہدام سے سابقہ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے دوران جرمنی ایک کثیر الثقافتی یا ملٹی کلچرل سوسائٹی بننے کے عمل میں تھا۔ اس تصویر میں مظاہرین 31 مارچ 1990ء کو ہیمبرگ میں تارکین وطن سے متعلق ایک نئے قانونی مسودے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔
یہ نمائش جرمنی میں ترکی کے ’مہمان ملازمین‘ کی پہلی اور دوسری نسل کی نقل مکانی کی جامع کوریج ہے۔ اس تصویر میں ہیمبرگ میں مقیم حسن حسین گل کا آٹھ افراد پر مشتمل کنبہ اپنے گھر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کولون میں یہ ترک تارکین وطن کی سبزیوں اور پھلوں کی دکان ہے۔ آج کل جرمنی میں زیتون اور بھیڑ کے دودھ سے تیار کردہ پنیر جیسی ترک مصنوعات بہت آسانی سے مل سکتی ہیں۔ لیکن ماضی میں مہمان مزدور ترکی سے واپسی کے دوران اپنی گاڑیوں میں کھانے پینے کی چیزیں بھر بھرکر اپنے ساتھ لاتے تھے۔
کولون شہر کے ایک پلے ایریا میں ترک نژاد بچے غباروں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ان کے پس منظر میں دیوار پر درخت کی تصویر کے ساتھ ترک شاعر ناظم حکمت کی ایک نظم کا اقتباس لکھا ہے۔ ’’جینے کے لیے! درخت کی طرح تنہا اور آزاد۔ جنگل کی طرح بھائی چارے میں۔ یہ تڑپ ہماری ہے۔‘‘ حکمت روس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، جہاں سن 1963 میں ان کا انتقال ہوا تھا۔
جرمن شہر ویرل کی فتح مسجد میں قائم ایک مدرسے میں ترک نژاد بچے عربی حروف سیکھ رہے ہیں تاکہ وہ قرآن پڑھ سکیں۔ جرمنی میں اُس وقت مینار کے ساتھ تعمیر ہونے والی یہ پہلی مسجد تھی۔ اس سے قبل زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کے احاطے میں نماز پڑھتے تھے۔
ترک فوٹوگرافر ایرگُن چاتائے نے برلن کے ضلع کروئزبرگ میں منعقدہ ایک ترکش شادی کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ دولہا دلہن کو مہمان نوٹوں کے ہار پہنا رہے ہیں۔ روایتی طور پر نیا شادی شدہ ترک جوڑا اپنے بستر میں ایک ہی بڑے تکیے کا استعمال کرتا ہے۔
جرمنی میں بسنے والے زیادہ تر ترک تارکین وطن عموماﹰ اپنی روایات سے جڑے رہتے ہیں۔ برلن میں ایک ترک بچے کے ختنہ کی تقریب منائی جا رہی ہے۔ ایرگُن چاتائے کی تصویروں کی نمائش ہیمبرگ اور برلن کے علاوہ ازمیر، انقرہ اور استنبول میں منعقد کی جائے گی۔
گزشتہ برس نئے جرمن شہری بننے والے ایسے افراد میں سب سے زیادہ تعداد شام، عراق، ایران اور ترکی کے باشندوں کی رہی تھی۔ جو غیر ملکی پہلے ہی یورپی یونین کے شہری تھے اور جنہوں نے 2022ء میں جرمنی میں طویل عرصے تک قیام کے بعد جرمن شہریت بھی حاصل کر لی، ان میں سب سے زیادہ تعداد پولینڈ اور رومانیہ کے باشندوں کی تھی۔
جرمنی میں مقامی شہریت کی درخواست دیے جانے کے بعد ضروری کارروائی کی تکمیل میں اب مقابلتاﹰ کافی زیادہ وقت اس لیے بھی لگتا ہے کہ متعلقہ سرکاری محکمے کے اہلکار یوکرین میں جنگ کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں آنے والے مہاجرین کے معاملات بھی دیکھ رہے ہیں۔
تاہم ایسے تمام علاقائی دفاتر اور وفاقی حکومت مل کر آئندہ مہینوں میں اس پورے عمل کو زیادہ تیز رفتار اور بہت زیادہ حد تک ڈیجیٹلائز کرنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔
م م / ع ا (کے این اے، ای پی ڈی)
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔