جرمن شہریوں میں مہاجرین کے لیے سرد مہری بڑھتی ہوئی
شمشیر حیدر7 جولائی 2016
جرمنی کی وفاقی پارلیمان آج ملک میں مہاجرین کے سماجی انضمام کے نئے قوانین متعارف کرا رہی ہے۔ لیکن ایک جائزے کے مطابق ملک کی خالص جرمن آبادی میں مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے کلچر کم ہوتا جا رہا ہے۔
اشتہار
بیلیفیلڈ یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے ایک جائزے کے مطابق ملک کی خالص جرمن آبادی میں مہاجرین کے سماجی انضمام پر رضا مندی میں بھی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ جائزے کے مطابق جرمنی میں مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے کلچر میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔
دو سال پہلے کیے گئے ایک سروے میں 36 فیصد جرمن شہری ملک میں مہاجرین اور تارکین وطن کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار تھے تاہم اس برس کے سروے میں ایسے جرمنوں کی تعداد کم ہو کر تقریباﹰ اٹھائیس فیصد رہ گئی ہے۔
خالص جرمن عوام کے رویے میں اس تبدیلی کے بارے میں بیلیفیلڈ یونیورسٹی سے وابستہ محقق اور اس تحقیقی جائزے کے انچارج آندریاس زیک کا کہنا تھا، ’’جرمن عوام کی رائے میں اس تیز رفتار تبدیلی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان موضوعات پر گزشتہ دو برسوں سے جاری شدید بحث رائے عامہ پر اثر انداز ہوئی ہے۔‘‘
2013 اور 2014 کے دوران کیے گئے ایک سروے میں پچپن فیصد سے زائد جرمنوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا تھا کہ دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن جرمنی کو اپنا ہی گھر سمجھتے ہیں۔ اس برس ایسے جرمنی کی تعداد بھی تقریباﹰ بارہ فیصد کم ہو کر محض 43.3 فیصد رہ گئی ہے جب کہ صرف بیالیس فیصد افراد جرمنی کو بطور کثیر الثقافتی معاشرہ قبول کرنے کو تیار ہیں۔
اس سروے سے وابستہ ایک اور محقق ماڈلن پروئس کا کہنا تھا، ’’جرمن عوام کی اکثریت جرمن روایات اور اقدار کے احیاء کے حق میں ہے۔ لیکن در اصل بات اس سے بھی گہری ہے۔ یہ لوگ حقیقت میں اپنے روایتی طرز زندگی اور معاشرتی غلبے کو واپس لانا چاہتے ہیں۔‘‘
زیک اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جرمنی میں مہاجرین کو خوش آمدید کہنے اور انہیں تسلیم کرنے کے کلچر کو واپس لانا ہو گا۔ اس ضمن میں زیک کی تجویز ہے کہ جرمنی میں پہلے سے آباد غیر ملکی پس منظر رکھنے والے افراد کی شمولیت بہت ضروری ہے۔ علاوہ ازیں جرمنی کو ایسی پالیسیاں بھی بنانا پڑیں گی جن کے ذریعے ملک میں آباد غیر ملکیوں اور جرمن شہریوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔
بہت سے دیگر مہاجرین کی طرح شازیہ لطفی بھی جیل خانے میں ہیں۔ انیس سالہ شازیہ نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن وہ خانہ جنگی سے فرار ضرور ہوئی ہے۔ ہالینڈ میں بہت سے مہاجرین سابقہ جیل خانوں میں عارضی پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ایک بستر، دو کرسیاں اور ایک کی بورڈ
ستائیس سالہ حامد کرمی اور اس کی پچیس سالہ اہلیہ فرشتے مورحیمی افغانستان سے فرار ہو کر یورپ پہنچے۔ انہیں ہارلیم کی ایک سابقہ جیل میں رہائش ملی ہے۔ حامد کی بورڈ بجاتا ہے جبکہ اس کی اہلیہ سر دھنتی ہے۔ معلوم نہیں کہ آیا یہ شادی شدہ جوڑا یورپ رہ سکے گا یا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
’ڈی کوپل‘ میں زندگی
ہارلیم کا سابقہ قید خانہ ’ڈی کوپل‘ کچھ یوں دکھتا ہے۔ سینکڑوں مہاجرین کو یہاں رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک پچیس سالہ رعد احسان بھی ہے، جو ایران سے یورپ پہنچا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
جیل تو جیل ہی ہوتی ہے
اگرچہ ڈچ حکام نے ان سابقہ جیل خانوں کی تعمیر نو کرتے ہوئے انہیں آرام دہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ یہاں قیام پذیر مہاجرین کا خیال رکھا جا سکے۔ تاہم جیل تو جیل ہی ہوتی ہے۔ اونچی دیواریں اور حفاظتی باڑیں حقیقی کہانی بیان کرتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
چائے کا کپ
حیات اللہ کا تعلق افغانستان سے ہے۔ وہ اس عارضی رہائش گاہ میں اپنے کمرے کے باہر بیٹھا چائے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ تئیس سالہ یہ افغان مہاجر اس سابقہ جیل خانے میں خوش ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
صومالیہ سے ہارلیم تک
صومالی خاتون کو ایک علیحدہ کمرہ دیا گیا ہے۔ اجاوا محمد کی عمر اکتالیس سال ہے۔ وہ بھی یہاں دیگر مہاجرین کی طرح اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کی منتظر ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
افغانستان، صومالیہ اور عراق۔۔۔
دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ یورپ پہنچے ہیں۔ وہ یہاں امن اور سکون کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ چوبیس سالہ یاسر حجی اور اس کی اٹھارہ سالہ اہلیہ گربیا کا تعلق عراق سے ہے۔ یہ خاتون یہاں کسی باربر یا بیوٹی سیلون نہیں جاتی بلکہ اس کا شوہر ہی اس کا خیال رکھتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
کپڑے دھونے کا انتظام
مہاجرین کو اس سابقہ جیل خانے میں تمام سہولیات حاصل ہیں۔ یہاں ان کے لیے واشنگ مشینیں بھی ہیں تاکہ وہ اپنے میلے کپڑوں کو دھو سکیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ہم جنس پرستی کی سزا نہیں
یہ نوجوان مراکش سے آیا ہے۔ وہاں اس ہم جنس پرست نوجوان کو جان کا خطرہ تھا۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن یورپ میں اسے اپنے جسنی میلانات کے باعث اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
عبادت کا وقت
فاطمہ حسین کا تعلق عراق سے ہے۔ پینسٹھ سالہ یہ خاتون بھی شورش سے فرار ہو کر ہالینڈ پہنچی ہے۔ اس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو گرافر محمد محسین کو حالت نماز میں تصویر بنانے کی اجازت دی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
آزادی سلب نہ کی جائے
چالیس سالہ ناران باتار کا تعلق منگولیا سے ہے۔ وہ ہارلیم کی سابقہ جیل کے باسکٹ بال کورٹ میں کھیل کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اسے واپس روانہ نہیں کیا جاتا تو آزاد رہے گا۔