جرمن شہری جمہوری نظام کے حق میں لیکن اسلام سے خائف
15 جولائی 2019جرمنی کی بیرٹلزمان فاؤنڈیشن نے اپنے اس تازہ مطالعاتی سروے کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیگر مذاہب کے لیے دقیانوسی و کٹر خیالات اور عدم برداشت طویل المدتی بنیادوں پر جمہوریت کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس تنظیم نے تجویز دی ہے کہ متعلقہ حکام کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لے چوکنا ہو جانا چاہیے۔
اس ادارے نے مذاہب کے بارے میں لوگوں کی سوچ اور نظریات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ملک بھر میں کرائے گئے اپنے تازہ سروے (ریلیجن مانیٹر) میں مسلمانوں، مسیحیوں اور ایسے افراد کے انٹرویوز کیے، جو مذاہب کو نہیں مانتے۔ بیرٹلزمان فاؤنڈیشن ہر دو سال بعد اس طرح کے ایک سروے کا انعقاد کرتی ہے۔
اس نئے مطالعے کے نتائج کے مطابق جرمنی میں مذہبی برداشت کی سطح میں کوئی فرق نہیں آیا تاہم سروے کے کئی جواب دہندہ افراد نے مذہب اسلام کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کیا۔ ان نتائج کے مطابق متعدد جرمن شہری اسلام کے بارے میں زیادہ اچھی سوچ نہیں رکھتے۔
مہاجرین کی آمد اور عالمگیریت کے نتیجے میں جرمنی میں مذہبی تنوع میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اس مطالعے کے مصنف گیرٹ پیکل کے مطابق جرمنی کی بدلتی ہوئی ڈیموگرافی کے باوجود جمہوری نظام کے بارے میں لوگوں کی رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور کسی بھی مذہب کا پیروکار ایک اچھا ڈیموکریٹ ہو سکتا ہے۔
اس سروے میں شریک ترانوے فیصد مسيحیوں اور اکانوے فیصد مسلمانوں کے علاوہ تراسی فیصد لادین افراد نے جمہوری نظام کی بھرپور انداز میں حمایت کی ہے۔
اسلام ایک خطرہ کیوں؟
اس سروے کے نتائج کے مطابق بالخصوص جرمنی کے مشرقی علاقوں میں، جہاں مسلم آبادی انتہائی کم ہے، اسلام کے بارے میں تحفظات زیادہ نوٹ کیے گئے ہیں۔ اس سروے کے مطابق جرمنی کے مشرقی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تیس فیصد جواب دہندگان نے واضح طور پر کہا کہ وہ مسلمانوں کو بطور اپنا ہمسایہ نہیں دیکھنا چاہتے۔
اسی طرح جرمنی کے مغربی علاقوں میں بھی کچھ جرمنوں میں ایسے احساسات دیکھے گئے ہیں۔ بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کے اس سروے کے مطابق جرمنی کے مغربی علاقوں میں سولہ فیصد جواب دہندگان نے بھی کہا کہ وہ اپنے ہمسائے میں مسلم گھرانوں کو نہیں دیکھنا چاہتے۔
بیرٹلزمان فاؤنڈیشن سے وابستہ یاسیمین المنیور کا کہنا ہے کہ اس سروے کے نتائج کے مطابق صرف تیرہ فیصد کا کہنا ہے کہ جرمنی کو امیگریشن روک دینا چاہیے، اس لیے اسلاموفوبیا والی صورتحال نہیں ہے۔
جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل سے منسلک ایمن مازیک نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس صورت حال کی ایک بڑی وجہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا پراپیگنڈہ ہے۔
ایمن مازیک کا مزید کہنا ہے کہ سیاست اور میڈیا میں اسلام مخالف بیانیوں کی وجہ سے ان کا خیال تھا کہ صورتحال اس سے بھی زیادہ ابتر ہو گی لیکن یہ خوش کن بات ہے کہ پچاس فیصد جرمنوں کے خیال میں اسلام منفی نہیں ہے۔