گزشتہ دو برسوں میں جرمنی میں لاکھوں مہاجرین آباد ہوئے۔ اس دوران دہشت گردی سمیت کئی طرح کے جرائم میں مہاجرین کے ملوث ہونے کی خبریں جرمن عوام کے لیے پریشان کن رہیں۔ کیا واقعی مہاجرین جرمنوں سے زیادہ جرائم میں ملوث ہیں؟
اشتہار
برلن کی کرسمس مارکیٹ میں دہشت گردی کرنے والا انس عامری بطور مہاجر جرمنی آیا تھا، ٹرین میں کلہاڑی سے حملہ کرنے والا افغان بھی جرمنی میں پناہ کا متلاشی تھا، پیرس حملہ آوروں میں سے ایک مہاجر تھا، اسی ماہ سویڈن میں پیدل افراد پر گاڑی چڑھانے والا بھی مہاجر تھا اور پھر حال ہی میں جرمن شہر بون میں دریائے رائن کے کنارے اپنے بوائے فرینڈ کے ہمراہ کیمپنگ کرنے والی ایک لڑکی کو جنسی ہوس کا نشانہ بھی ایک مہاجر ہی نے بنایا۔
انفرادی سطح پر کیے گئے جرائم کے علاوہ سن 2016 کے نئے سال کے موقع پر کولون شہر میں جتھوں کی صورت میں جنسی طور پر ہراساں کرنے والے افراد میں سے بھی کئی یا تو مہاجر تھے یا پھر ترک وطن کا پس منظر رکھنے والے افراد تھے۔
ایسے واقعات کے بعد جرمن عوام میں مہاجرین کی آمد کے باعث جرائم میں اضافہ ہو جانے کے خدشات بھی جڑ پکڑ چکے ہیں۔ لیکن کیا واقعی عام جرمن شہریوں کے مقابلے میں مہاجرین زیادہ جرائم کرتے ہیں؟
مہاجرین جرائم میں زیادہ ملوث ہونے کے اسباب
جرمنی میں جرائم کی تحقیق کا وفاقی ادارہ (بی کے اے) اپنے اعداد و شمار میں اب اس بات کا شمار بھی کرتا ہے کہ جرم کرنے والا مہاجر تھا یا جرمن شہری۔ سن 2016 کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ سال کے بارہ ماہ کے دوران تین لاکھ کے قریب جرائم ایسے تھے جن میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک یا ایک سے زائد مہاجرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اس برس کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں جرائم کی مجموعی تعداد میں کمی واقع ہوئی، لیکن مہاجرین کے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا۔
وفاقی جرمن ریاست سیکسنی زیریں کے سابق وزیر انصاف کرسٹیان فائفر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرائم اور مہاجرین کا تعلق ایک اور معاملے سے بھی جڑا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ تارکین وطن کی جرمنی میں قانونی حیثیت کیا ہے۔
فائفر کے بقول، ’’شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو جرمنی آنے کے فوراﹰ بعد ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ انہیں پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ ایسے افراد میں بے چینی اور غصہ پایا جاتا ہے اور اسی کا ردِعمل ہم کولون حملوں جیسے واقعات میں دیکھتے ہیں۔‘‘
ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ معاشی بنیادوں پر جرمنی آنے والے تارکین وطن روزگار کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ قوانین کے مطابق ملازمت کا حصول ایک مشکل مرحلہ ہے۔ فائفر کے مطابق یہ بھی ایک وجہ ہے کہ تارکین وطن پیسے کمانے کے لیے جرائم کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔
سابق صوبائی وزیر انصاف کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا بھر میں نوجوان مرد زیادہ تر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جرمنی آنے والے نئے تارکین وطن کی اکثریت بھی پندرہ سے تیس برس کے مردوں پر مشتمل ہے۔ اس عمر کے افراد میں جرم کرنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘