1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن شہری مہاجرين سے پریشان نہیں، مطالعہ

18 ستمبر 2018

ایک تازہ جائزے کے مطابق سیاسی پناہ کے موضوع پر جاری پریشان کن بحث کے باوجود جرمن شہریوں کی ایک بڑی تعداد تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والوں اور اپنے مہاجر پڑوسیوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

Deutschland Frankfurt Demo der "Seebrücke"
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Rössler

انضمام اور مہاجرت کے موضوع پر تحقیق کرنے والی ایک فاؤنڈیشن (ایس وی آر) کے اس جائزے کے مطابق جرمنی میں آباد لوگ ملک کے کثیر الثقافتی معاشرے کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔ ’’انٹیگریشن بیرو میٹر 2018ء‘‘ 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے بعد کرایا جانے والا اپنی نوعیت کا پہلا جائزہ ہے۔

تصویر: Reuters/W. Rattay

اس کے مطابق سیاسی سطح پر ہجرت اور مہاجرین کے موضوع پرتند و تیز بحث کے باوجود زیادہ تر مقامی شہری یہ سمجھتے ہیں کہ تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والوں اور غیر ملکیوں کے ساتھ زندگی اچھے طریقے سے گزر رہی ہے۔

اس جائزے میں شامل تقریباً 63.8 فیصد جرمن شہریوں نے انضمام پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والے68.9 فیصد افراد انضمام کی حکومتی کوششوں سے مطمئن ہیں۔

دوسری جانب اس جائزے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہاجرین کے موضوع پر مشرقی اور مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی رائے منقسم ہے۔ جرمنی میں انضمام کی صورتحال پر خواتین، مردوں کے مقابلے میں زیادہ مثبت سوچ رکھتی ہیں۔ اس جائزے کے مطابق مہاجرین کے حوالے سے روز مرہ کے حالات  قدرے بہتر ہیں تاہم ذرائع ابلاغ میں انہیں کبھی کبھار بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔

جرمنی میں انضمام کی کمشنر آنیٹے ماؤز کے بقول اس جائزے کے نتائج ایک مثبت اشارہ ہیں۔ جائزے میں شریک اسی فیصد مسلم شہریوں نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کو اسکولوں میں حجاب پہننے کی اجازت ہونی چاہیے جبکہ اکتالیس فیصد مسیحیوں کی رائے میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

یہ جائزہ جولائی 2017ء اور جنوری 2018ء کے درمیان مرتب کرایا گیا ہے اور اس میں تقریباً نو ہزار دو سو افراد سے ان کی رائی پوچھی گئی ہے۔

جرمنی: نازی گاؤں میں خوش آمدید

01:30

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں