ایک تازہ جائزے کے مطابق سیاسی پناہ کے موضوع پر جاری پریشان کن بحث کے باوجود جرمن شہریوں کی ایک بڑی تعداد تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والوں اور اپنے مہاجر پڑوسیوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اشتہار
انضمام اور مہاجرت کے موضوع پر تحقیق کرنے والی ایک فاؤنڈیشن (ایس وی آر) کے اس جائزے کے مطابق جرمنی میں آباد لوگ ملک کے کثیر الثقافتی معاشرے کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔ ’’انٹیگریشن بیرو میٹر 2018ء‘‘ 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے بعد کرایا جانے والا اپنی نوعیت کا پہلا جائزہ ہے۔
اس کے مطابق سیاسی سطح پر ہجرت اور مہاجرین کے موضوع پرتند و تیز بحث کے باوجود زیادہ تر مقامی شہری یہ سمجھتے ہیں کہ تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والوں اور غیر ملکیوں کے ساتھ زندگی اچھے طریقے سے گزر رہی ہے۔
اس جائزے میں شامل تقریباً 63.8 فیصد جرمن شہریوں نے انضمام پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والے68.9 فیصد افراد انضمام کی حکومتی کوششوں سے مطمئن ہیں۔
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
9 تصاویر1 | 9
دوسری جانب اس جائزے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہاجرین کے موضوع پر مشرقی اور مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی رائے منقسم ہے۔ جرمنی میں انضمام کی صورتحال پر خواتین، مردوں کے مقابلے میں زیادہ مثبت سوچ رکھتی ہیں۔ اس جائزے کے مطابق مہاجرین کے حوالے سے روز مرہ کے حالات قدرے بہتر ہیں تاہم ذرائع ابلاغ میں انہیں کبھی کبھار بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔
جرمنی میں انضمام کی کمشنر آنیٹے ماؤز کے بقول اس جائزے کے نتائج ایک مثبت اشارہ ہیں۔ جائزے میں شریک اسی فیصد مسلم شہریوں نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کو اسکولوں میں حجاب پہننے کی اجازت ہونی چاہیے جبکہ اکتالیس فیصد مسیحیوں کی رائے میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
یہ جائزہ جولائی 2017ء اور جنوری 2018ء کے درمیان مرتب کرایا گیا ہے اور اس میں تقریباً نو ہزار دو سو افراد سے ان کی رائی پوچھی گئی ہے۔