ہیمبرگ میں ایک چھبیس سالہ تارک وطن نے ایک سپر مارکیٹ میں موجود صارفین پر چاقو سے حملے کیے ہیں۔ حملہ آور اپنے حملے کے دوران اللہ اکبر کے نعرے بھی لگا رہا تھا۔
اشتہار
جمعہ اٹھائیس جولائی کو چھبیس سالہ حملہ آور نے چاقو کے وار کرنے کے بعد حملے کے مقام سے فرار ہونے کی کوشش ضرور کی لیکن چند راہ گیروں نے اُس کو گرا کر قابو کیا اور بعد میں پولیس نے اُسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ نیوز ویب سائٹ اشپیگل آن لائن نے حملہ آور کا نام احمد اے بتایا ہے۔ پولیس نے اس حملہ آور کے نام اور شہریت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ہلاک ہونے والا پچاس برس کا جرمن شہری تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور کے ہاتھ میں ایک ایسا بڑا چھرا تھا جو عموماً قصائی استعمال کرتے ہیں۔ حملہ آور کو قابو کرنے کی کوشش میں ایک پینتیس سالہ شخص بھی زخمی ضرور ہوا لیکن اُسی نے ہمت کر کے اُسے نیچے گرانے میں کامیابی حاصل کی۔ بعد میں چند اور لوگوں نے بھی حملہ آور کو پولیس کے پہنچنے تک دبوچے رکھا۔
اشپیگل آن لائن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ یہ حملہ آور متحدہ عرب امارات میں پیدا ہوا۔ اُس نے جرمنی پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی، جو مسترد ہو گئی۔ اسی دوران یہ شخص جہادی نظریات کی ترویج کرنے والوں کے رابطے میں آ گیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ اِس حملہ آور کو دماغ کے خلل کا عارضہ بھی لاحق ہے اور وہ ادویات کے استعمال پر ہے۔
اشپیگل آن لائن کی رپورٹ کے مندرجات بھی پولیس سے تصدیق شدہ نہیں ہیں۔ اس آن لائن جریدے نے ایک عام شخص کی موبائل فون سے بنائی گئی حملے کی ویڈیو بھی اپ لوڈ کی ہے۔
جب راہ گیر نے شدت پسند حملہ آور کو روکا
00:51
ہیمبرگ کے میئر اولاف شولس کا کہنا ہے کہ یہ حملہ بظاہر نفرت کے محرکات رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات پریشان کن اور خفگی پیدا کرنے کی ہے کہ جرمنی نے ایک شخص کو جگہ دی اور انجام کار اُسی نے اپنی نفرت کا اظہار اس ملک کے خلاف کیا۔
اولاف شولس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے افراد اُن کے آزاد معاشرے میں خوف کی جو فضا پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں، اُس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ میئر نے یہ بھی بتایا کہ حملہ آور کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اُس کی ملک بدری کا انتظار کیا جا رہا تھا کیونکہ اُس کی سفری دستاویزات اور شناخت کے کاغذات بھی نامکمل تھے۔
جرمنی میں تارکینِ وطن کی رہائش گاہیں
جرمنی میں پناہ گزینوں سے متعلق دفتر کا اندازہ تھا کہ 2015ء کے دوران تقریباً تین لاکھ مہاجرین جرمنی کا رخ کریں گے لیکن اب اس تعداد کو ساڑھے چار لاکھ کر دیا گیا ہے۔ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو ٹھہرایا کہاں جاتا ہے؟
تصویر: Picture-Alliance/dpa/P. Kneffel
عارضی رہائش گاہیں
جرمن شہر ٹریئر میں قائم کی جانے والی عارضی رہائش گاہوں میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو افراد کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی بھی مہاجر جرمنی آتا ہے تو اسے ابتدائی تین ماہ اسی طرح کی جگہوں پر رکھا جاتا ہے۔ بعد ازاں انہیں کسی دوسرے شہر یا کسی مضافاتی علاقے میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں پر انتظامات مختلف ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Tittel
ہنگامی انتظامات
سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث عارضی رہائش گاہوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے شہر کے ٹاؤن ہال یا دیگر سرکاری عمارتوں میں ہنگامی انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہ تصویر شہر ’ہام‘ میں قائم کی جانے والی ایک ایسی ہی ہنگامی رہائش گاہ کی ہے، جہاں ایک وقت میں پانچ سو مہاجرین قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
اسکول بھی رہائش گاہیں
مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو رہائش فراہم کرنے میں اکثر شہروں کی انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر شہر آخن کو جولائی کے وسط میں تین سو مہاجرین کے قیام کا انتظام کرنا تھا اور اس موقع پر ان افراد کو صرف اسکول میں ہی پناہ دی جا سکتی تھی۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/R. Roeger
عارضی خیمے
اس دوران جرمنی میں بہت سے مقامات پر مہاجرین کے لیے خیمے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ موسم گرما میں تو ان عارضی خیموں کو استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم سردیوں میں ان مہاجرین کو کسی عمارت میں منتقل کرنا پڑے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/J. Wolf
سب سے بڑی خیمہ بستی
مہاجرین کے لیے سب سے بڑی خیمہ بستی مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں قائم کی گئی ہے۔ یہاں رہنے کے لیے صبر کی ضرورت ہے۔ بیت الخلاء کے لیے طویل قطاریں لگتی ہیں اور کھانے کے لیے بھی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آج کل یہاں پر پندرہ ممالک کے ایک ہزار افراد موجود ہیں۔ اس خیمہ بستی میں کُل گیارہ سو افراد قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/A. Burgi
کنٹینرز بطور رہائش گاہ
زیادہ سے زیادہ پناہ گزینوں کا انتظام کرنے کے لیے بہت سے جرمن علاقوں میں کنٹینرز میں بھی رہائش گاہیں قائم کر دی گئی ہیں۔ شہر ٹریئر میں 2014ء سے ایسی رہائش گاہیں قائم ہیں۔ آج کل یہاں ایک ہزار سے زائد مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/H. Tittel
مہاجرین کی پناہ گاہوں پر حملے
صوبے باڈن ورٹمبرگ میں مہاجرین کے لیے زیر تعمیر ایک عمارت کو 18 جولائی کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران جرمنی کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں روزانہ کی بنیادوں پر مہاجرین کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ غیر ملکیوں سے اس نفرت کے خلاف شہریوں کی جانب سے مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/SDMG/Dettenmeyer
سیاسی قائدین
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور نائب جرمن چانسلر زیگمار گابریئل نے اکتیس جولائی کو صوبہ میکلنبرگ پومیرانیہ میں قائم ایک مہاجر بستی کا دورہ کیا۔ یہاں تین سو افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس موقع پر گابریئل نے کہا کہ مہاجرین کو پناہ دینے کا تعلق صرف پیسے سے نہیں بلکہ یہ عزت و وقار کا معاملہ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Wüstneck
نئی عمارات کی تعمیر
پناہ گزینوں کو مناسب سہولیات فراہم کرنے لیے مختلف علاقوں میں نئی رہائش گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ یہ صوبہ باویریا میں تعمیر کی جانے والی ایک ایسی ہی عمارت کی تصویر ہے، جس میں ساٹھ افراد کی گنجائش ہے۔ جنوری 2016ء میں تعمیراتی سلسلہ مکمل ہو جائے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/D. Karmann
انتظار انتظار
مہاجرین کے لیے جب تک نئی باقاعدہ رہائش گاہیں تعمیر نہیں ہو جاتیں، عارضی رہائش گاہوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہے گا، جیسے میونخ میں قائم کی جانے والی یہ خیمہ بستی ہے، جسے ایک ہی رات میں تعمیر کیا گیا۔ اس میں کئی درجن خیمے ہیں، جن میں تقریباً تین سو بستر لگائے گئے ہیں۔