ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا جرمن شہر ویزباڈن میں نصب کیا گیا مجسمہ ہٹا دیا گیا ہے۔ اس چار میٹر بلند مجسمے کی تنصیب ایک آرٹ نمائش کے سلسلے میں کی گئی تھی اور منتظمین کو پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ مجسمہ صدر ایردوآن کا ہونا تھا۔
اشتہار
وفاقی جرمن صوبے ہیسے کے دارالحکومت ویزباڈن سے بدھ انتیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ویزباڈن شہر کے ایک مرکزی علاقے، جرمن یونٹی اسکوائر میں نصب کردہ یہ مجسمہ چار میٹر یا 13 فٹ بلند تھا اور اسے وہاں پر اسی شہر میں ہر دو سال بعد ہونے والی ایک بین الاقوامی آرٹ نمائش کے سلسلے میں لگایا گیا تھا۔
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
10 تصاویر1 | 10
لیکن غیر معمولی بات یہ تھی کہ شہری انتظامیہ اور آرٹ میلے کے منتظمین کو خبر ہی نہیں تھی کہ انہوں نے جرمن یونٹی اسکوائر میں جس مجسمے کی عبوری تنصیب کی منظوری دی تھی، وہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا مجسمہ تھا۔
سہنری رنگ کا یہ مجسمہ ویزباڈن میں پیر ستائیس اگست کو نصب کیا گیا تھا اور اس پر اس شہر میں اور، جرمنی میں جہاں جہاں اس کی تنصیب کی خبر پہنچی تھی، ہر کوئی حیران تھا کہ یہ مجسمہ اچانک کہاں سے آ گیا اور اسے کیوں نصب کیا گیا تھا۔
ڈی پی اے کے مطابق اس بارے میں عوامی شکایات اور شہری انتظامیہ کو بہت سے شہریوں کی طرف سے کی گئی ٹیلی فون کالوں کے بعد منگل اٹھائیس اگست کی شام ویزباڈن میں مقامی فائر بریگیڈ کے محکمے کے اہلکاروں نے یہ مجسمہ وہاں سے ہٹا دیا۔
اس بارے میں ویزباڈن کی شہری انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا کہ یہ مجسمہ مقامی حکومت کو بتائے بغیر نصب کیا گیا تھا اور ایسا کرنا اچھی بات نہیں تھی۔ ’’اسی لیے اب اس مجسمے کو ہٹا دیا گیا ہے۔‘‘
یہ مجسمہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں ترک صدر ایردوآن اپنا دایاں ہاتھ ہوا میں بلند کیے ہوئے شہادت کی انگلی سے ایک طرف اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کسی مجسمے کا وہی انداز ہے، جیسا عراق میں ماضی کے حکمران صدام حسین کے اس مجسمے کی صورت میں بھی دیکھا جا سکتا تھا، جسے عراق میں فوجی مداخلت کے بعد امریکی دستوں نے 2003ء میں منہدم کر دیا تھا۔
ارے! یہ ترک شہری آئی فونز کیوں توڑ رہے ہیں؟
01:50
ویزباڈن کے جرمن یونٹی اسکوائر سے ہٹائے جانے سے پہلے ترک صدر کے اس مجسمے پر نامعلوم افراد کی طرف سے متعدد کلمات بھی لکھے دیے گئے تھے۔
شہری انتظامیہ کے ایک ترجمان کے مطابق یہ مجسمہ شہر میں آرٹ کی جس بین الاقوامی نمائش کے ایک حصے کے طور پر نصب کیا گیا تھا، وہ ہر دو سال بعد منعقد ہوتی ہے اور اس مرتبہ اس نمائش کا موضوع ’بیڈ نیوز‘ یا ’بری خبریں‘ ہیں۔
جرمنی اور ترکی کے مابین اس وقت کئی مختلف وجوہات کے باعث سفارتی کھچاؤ پایا جاتا ہے۔ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ترک صدر ایردوآن اگلے ماہ جرمنی کا ایک سرکاری دورہ بھی کرنے والے ہیں۔
بہت سے جرمن شہری ترک سربراہ مملکت کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے اور اس بات سے بھی نہیں کہ رجب طیب ایردوآن جرمنی میں مقیم لاکھوں ترک باشندوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے ایک رہنما اور ترک نژاد جرمن برادری کی معروف ترین سیاسی شخصیت چیم اوئزدیمیر نے ابھی گزشتہ ماہ ہی کہا تھا کہ ترک صدر ایردوآن نے اپنے ملک کو ’ایک طرح کا ترکمانستان یا آذربائیجان بنا دیا ہے، جہاں سنسرشپ ہے، اقربا پروری بھی، اور خود پسندانہ طرز سیاست بھی۔‘‘
م م / ا ا / ڈی پی اے، اے پی
مسلم دنیا میں ایردوآن کا دوست کون، مخالف کون؟
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو مسلم ممالک میں یا تو بے انتہا پسند کیا جاتا ہے یا پھر ان کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ صدر ایردوآن کے حامیوں اور مخالفین میں مسلم دنیا کے کون سے اہم رہنما پیش پیش ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kamaci
مصری صدر السیسی اور ایردوآن
صدر ایردوآن اور مصری صدر السیسی کے تعلقات مصر میں اخوان المسلمون کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئے۔ صدر ایردوآن کے مطابق السیسی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے اس لیے انہیں برسراقتدار رہنے کا حق نہیں۔ دوسری جانب قاہرہ کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم ہے اور ایردوآن اس کے حامی ہیں۔ یہ دونوں ممالک لیبیا میں بھی آمنے سامنے ہیں۔
تصویر: Reuters
شیخ خلیفہ بن زید اور ایردوآن
ترک اماراتی تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے بھی ایردوآن کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارک نہیں دی تھی۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں خلیجی تنازعہ اور ’سیاسی اسلام‘ کے معاملے پر اختلافات نمایاں ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک میڈیا نے متحدہ عرب امارات پر باغیوں کی معاونت اور حمایت کے الزامات عائد کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Y. Bulbul
سعودی ولی عہد اور ایردوآن
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے مابین اختلاف کی بنیادی وجہ ’مسلم ممالک کی قیادت‘ ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تو ترکی پر یہ الزام بھی عائد کر چکے ہیں کہ انقرہ اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Asfouri
ترکی اور پاکستان
ترکی اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات کئی عشروں پر محیط ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنا بھائی قرار دیتے ہیں۔ صدر ایردوآن کے شریف خاندان کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں لیکن انہوں نے عمران خان کو بھی خوش آمدید کہا۔ مسئلہ کشمیر پر ترکی نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office/K. Ozer
صدر بشار الاسد اور صدر ایردوآن
شامی صدر بشار الاسد کا شمار بھی صدر ایردوآن کی شدید مخالفت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ صدر ایردوآن شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے صدر بشار الاسد کے اقتدار سے الگ کیے جانے کا اپنا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں اور ایک تقریر میں تو ایردوآن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ ’شام کو آزاد‘ کرائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عراق اور ترکی
ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات سن 2016 کے بعد اس وقت زیادہ کشیدہ ہو گئے تھے جب ترک فوجیں عراق کے شمالی حصے میں داخل ہو گئی تھیں۔ عراق نے ترک فوجی کارروائی کو اپنی ریاستی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/The Presidency of the Republic of Iraq Office
شیخ تمیم اور ایردوآن
قطر اور خلیجی ممالک کے مابین تنازعے کے دوران ترکی نے قطر کی حمایت کی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین دیرینہ اقتصادی اور عسکری تعلقات بھی ہیں۔ اسی وجہ سے قطری امیر پرنس تمیم احمد الثانی صدر ایردوآن کو انتخابات کے بعد مبارک دینے والے پہلے عالمی رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/C. Oksuz
صدر روحانی اور ایردوآن
ایران اور ترکی کے مابین تعلقات حالیہ برسوں کے دوران مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ اگرچہ شامی تنازعے، خاص طور پر صدر اسد کے مستقبل کے حوالے سے ایران اور ترکی کا موقف مختلف ہے، تاہم اس تنازعے کے حل کے لیے بھی یہ دونوں ممالک روس کے ساتھ مل کر کوشاں ہیں۔
تصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images
مراکش اور صدر ایردوآن
مراکش اور ترکی کے مابین بھی قریبی تعلقات ہیں۔ ترکی نے مراکش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ مراکشی وزیر اعظم سعد الدین العثمانی کی جماعت اور صدر ایردوآن کی سیاسی جماعت کے بھی آپس میں قریبی رابطے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Domingo
لیبیا اور ترکی
طرابلس میں ترک پرچم لہرانے والے یہ مظاہرین ترک صدر کو پسند کرتے ہیں۔ ترکی نے طرابلس حکومت کی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے حال ہی میں وہاں تعینات کیے ہیں۔ اس ملک میں مصر اور سعودی عرب ترکی کا اثرو رسوخ کم کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/H. Turkia
سوڈان اور ترکی
سوڈان کے سابق صدر عمر حسن البشیر کا شمار ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے پرانے دوستوں میں ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین قریب اقتصادی تعلقات بھی تھے۔ البشیر حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابیں اب پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔