جرمن پولیس کے مطابق ہیمبرگ شہر میں ایک افغان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ مشتبہ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ تفتیش کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعے کے دن ہیمبرگ شہر میں ایک افغان شہری کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مقتول کی عمر چھبیس برس بتائی گئی ہے۔ اس حملے کے محرکات کا علم نہیں ہو سکا ہے تاہم پولیس نے مشتبہ حملہ آور کو گرفتار کر کے چھان بین کا عمل شروع کر دیا ہے۔
ہیمبرگ پولیس کے ترجمان اولف وُندراک نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ قتل کا یہ واقعہ جمعے کی دوپہر کو رونما ہوا اور مشتبہ حملہ آور کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تئیس سالہ ملزم نے کار میں سوار ہو کر جائے وقوعہ سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی لیکن فوری کارروائی کرتے ہوئے اسے گرفتار کر لیا گیا۔
بتایا گیا ہے کہ مشتبہ حملہ آور افغان نژاد جرمن شہری ہے۔ وُندراک کا مزید کہنا تھا کہ اس خونزیز تشدد کے محرکات کیا ہیں؟ یہ ابھی معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ مقتول ہیمبرگ میں واقع ایک فٹنس سینٹر سے جب باہر نکلا تو اسے گولی مار دی گئی۔ پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منظم مجرمانہ کارروائی تھی۔ پولیس حکام نے میڈیا کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ مقتول جب فٹنس سینٹر سے باہر نکل کر پارکنگ ایریا میں آیا تو مشتبہ حملہ آور وہاں پہلے سے موجود تھا، جس نے فائرنگ کر دی۔
فائرنگ کے بعد جب مشتبہ حملہ آور نے اپنی کار میں سوار ہو کر فرار ہونے کی کوشش کی تو پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اسے حراست میں لے لیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس تشدد کی اطلاع ملنے پر پولیس کی بھاری نفری فوری طور پر موقع پر پہنچ گئی جبکہ پولیس ایک ہیلی کاپٹر بھی فضا میں اڑتا دیکھائی دیا۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔