شمالی جرمنی کے بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں شوٹنگ کے ایک واقعے میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے مطابق یہ خونریز واقعہ ہفتہ پچیس مارچ کو رات گئے پیش آیا۔ ہیمبرگ میں رواں ماہ کے دوران یہ شوٹنگ کا دوسرا بڑا جان لیوا واقعہ ہے۔
اشتہار
ابتدائی معلومات کے مطابق جرمن شہری ریاست ہیمبرگ میں ریاستی دفتر استغاثہ کے ذرائع نے بتایا کہ مرنے والے دو افراد میں ایک حملہ آور بھی شامل ہے۔ اس شخص نے بظاہر پہلے ایک دوسرے شخص پر کئی گولیاں فائر کیں اور اسے قتل کرنے کے بعد اپنے آتشیں ہتھیار کا رخ اپنی ہی طرف کیا اور گولی مار کر خود کشی کر لی۔
پولیس نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد موقع پر فوری کارروائی مکمل کر لی گئی ہے اور اس ہلاکت خیز واقعے کے اسباب کے تعین کے لیے چھان بین جاری ہے۔
جرمنی کے کثیر الاشاعت اخبار 'بِلڈ‘ کے مطابق پولیس کو ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات نصف شب کے قریب اطلاع ملی تھی کہ ہیمبرگ شہر کے علاقے لانگن ہورن میں شوٹنگ میں ایک سے زائد افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے ہیں۔ اس پر پولیس کی دو درجن کے قریب گاڑیاں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔
ہیمبرگ میں شانزن کا علاقہ کسی میدان جنگ سے کم نہیں
لوٹی ہوئی دکانیں، جلتا ہوا سامان، تیز دھار پانی اور آنسو گیس۔ گزشتہ روز جرمن شہر ہیمبرگ کا یہ حال تھا۔ اس شہر میں دنیا کے بیس اہم ممالک کے سربراہاں اکھٹے ہیں۔ ہنگامہ آرائی میں کئی سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
مظاہروں کا مقصد
مظاہرین سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ چاہتے ہوئے ایک ایسے آزادانہ نظام کے حامی ہیں، جس میں پیسے اور حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہو گا۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
سیاہ بلاک
ہیمبرگ میں ہونے والے جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے ہنگامہ آرائی میں ملوث بائیں بازو کے سخت گیر موقف رکھنے والے خود کو ’بلیک بلاک‘ یا سیاہ بلاک کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ چند سو افراد آج کل شہ سرخیوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
بلیک بلاک کون ہیں؟
بلیک بلاک عام طور پر سخت گیر موقف رکھنے والے بائیں بازو کے افراد ہیں اور ان میں انارکسٹ یا افراتفری پھیلانے والے بھی شامل ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ باقاعدہ کوئی منظم تنظیم تو نہیں بلکہ احتجاج کا ایک انداز ہے۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
’شانزن فیئرٹل‘ میں لوٹ مار
تشدد پر آمادہ کئی سو افراد نے ہیمبرگ کے علاقے ’شانزن فیئرٹل‘ میں رات پھر ہنگامہ آرائی کی۔ اس دوران دکانوں کو لوٹا گیا اور املاک کو آگ لگائی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
اضافی نفری
تین گھنٹوں کے بعد پولیس کی اضافی نفری طلب کی گئی اور تشدد پر آمادہ ان مظاہرین کو کچھ حد تک پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئی۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
تیز دھار پانی
مظاہرین کے خلاف پولیس کو تیز دھار پانی کا استعمال کرنا پڑا اور چند مقامات پر تو آنسو گیس کے گولے بھی برسائے۔ اس دوران حکام نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فضا سے بھی نگرانی جاری رکھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schrader
تبدیلی کا وقت آ گیا ہے
بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں مظاہرین نے کشتیوں کے ذریعے بھی احتجاج کیا۔ تحفظ ماحول کی تنظیم گرین پیس نے پیرس معاہدے سے دستبرداری کے امریکی فیصلے کو تنقید کا نشایا بنایا۔
تصویر: Reuters/F. Bimmer
پولیس پر حملے
مشتعل مظاہرین نے مختلف مقامات پر پولیس پر شیشے کی خالی بوتلیں برسائیں اور پتھراؤ بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
’شانزن فیئرٹل‘ کا حال
ہیمبرگ کا شانزن فیئرٹل خانہ جنگی کے شکار کسی شہر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ حکام کے مطابق اس دوران 213 پولیس افسر زخمی ہوئے جبکہ دو سو سے زائد مظاہرین کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/D. Bockwoldt
ہفتے کے دن کا پرسکون آغاز
رات کے مختلف اوقات میں جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے بعد ہفتے کی علی الصبح حالات پولیس کے قابو میں تھے۔ تاہم اس کے بعد مظاہرین نے پھر سے اکھٹے ہونا شروع کر دیا۔
بتایا گیا ہے کہ موقع پر پہنچنے کے بعد پولیس کو شہر کے اس علاقے میں دو رہائشی عمارات کے درمیان ایک فٹ پاتھ پر دو افراد کی لاشیں ملیں۔ دونوں کی موت بظاہر فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ اسٹیٹ پراسیکیوٹر کے دفتر کی طرف سے بھی اتوار کی صبح یہی بتایا گیا کہ فی الحال اس دوہری ہلاکت کے اسباب غیر واضح ہیں۔
قبل ازیں مارچ کی نو تاریخ کو بھی اسی جرمن شہر میں مسیحیوں کے ایک مذہبی گروپ کے ایک اجتماع میں ایک شخص نے فائرنگ کر کے چار مردوں اور دو خواتین سمیت کم از کم سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
م م / ع س (روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)
ہیمبرگ کی بندرگاہ: ’دنیا کا دروازہ‘
اس بندرگاہ کا ہیمبرگ سے تعلق ویسا ہی ہے، جیسا آئفل ٹاور کا پیرس سے۔ ساری دنیا سے سامان اسی ’دروازے‘ سے جرمنی میں داخل ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ریکارڈ آمد و رفت
عالمی معیشت میں کمزوری کے باوجود رواں برس اس بندرگاہ پر کنٹینرز کی ریکارڈ آمد و رفت رہی۔ پہلی مرتبہ کنٹینرز کی تعداد دس ملین سے بھی تجاوز کر گئی۔ سن دو ہزار تیرہ کے مقابلے میں اس آمد و رفت میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔
تصویر: HHLA
بحری جہاز
اس بندرگاہ پر سالانہ دس ہزار سے زائد بحری جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں۔ ان میں کروز شپ، کارگو، ٹینکرز، کار کیریئرز اور مشین کیریئرز ہر طرح کے بحری جہاز شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ تعداد ستّر فیصد مال بردار بحری جہازوں کی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
دنیا کی بڑی بندرگاہوں میں سے ایک
جرمنی کی یہ بندرگاہ دنیا کی چودہویں بڑی بندرگاہ ہے۔ شنگھائی، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی بندرگاہیں اس کے بعد آتی ہیں۔ یورپ میں اس سے بڑی بندرگاہ صرف ہالینڈ میں روٹرڈیم کی بندرگاہ ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
بڑے جہاز، زیادہ مسائل
انتہائی اہم بندرگاہ ہونے کی وجہ سے یورپ کی طرف آنے والے بڑے بڑے کنٹینر شپ بھی یہاں آتے ہیں۔ جنوری میں دنیا کا سب سے بڑا کنٹینر شپ یہاں لنگرانداز ہوا۔ یہ جہاز چین کی ایک کمپنی چلاتی ہے اور اس پر بیک وقت انیس ہزار ایک سو کنٹینر لادے جاتے ہیں۔ لیکن اس جہاز کو صرف آدھا لادا گیا تھا کیونکہ دریائے ایلبے کا پانی زیادہ گہرا نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
مزید گہرا پانی
اگر اس بندرگاہ کو مزید گہرا نہیں کیا جاتا تو بڑے بحری جہازوں کی آمد و رفت کم ہوتی جائے گی۔ حکام کے مطابق نارتھ سی اور بندرگاہ کے درمیان ایک سو کلومیٹر کے راستے کو گہرا کرنا ضروری ہے۔ ماحولیاتی تنظیمیں اس کے خلاف ہیں۔ ان کے مطابق اس طرح علاقے کا میٹھا پانی متاثر ہو سکتا ہے اور کسانوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WILDLIFE
ہیمبرگ کے لیے خطرہ
دنیا میں بڑے بحری جہازوں کی دوڑ بھی ہیمبرگ کی بندرگاہ کے لیے خطرہ ہے۔ بڑے بحری جہازوں کے لیے جرمنی کی کسی دوسری بڑی بندرگاہ کو موزوں بنایا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہیمبرگ کے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
مقابلے کی دوڑ
مستقبل میں جرمنی کی وِلہَیلمز ہافن (بندرگاہ) ہیمبرگ کی بندرگاہ کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ ابھی تک یہ بندرگاہ شپنگ کمپنیوں کی طرف سے استعمال نہیں کی جاتی۔ لیکن یہ بندرگاہ گہرائی کے لحاظ سے بڑے بحری جہازوں کے لیے موزوں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
مشرقی علاقے
یورپ کے مشرقی علاقے بھی ہیمبرگ کی بندرگاہ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں کارگو جہازوں کے کنٹینر اتارے جاتے ہیں اور بعد ازاں انہیں مال گاڑیوں اور بڑے بڑے ٹرکوں کے ذریعے مشرقی یورپ کے مختلف علاقوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
مشینوں کے ذریعے کام
اس بندرگاہ پر زیادہ تر کام مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ خود کار طریقے سے روزانہ دس ہزار کنٹینر اپ لوڈ یا آف لوڈ کیے جاتے ہیں اور اس کے لیے کرینیں استعمال کی جاتی ہیں۔
تصویر: HHLA
شہر میں وسعت
بندرگاہ کی وجہ سے ہیمبرگ میں نئے منصوبوں کا بھی آغاز ہوتا رہتا ہے۔ اس شہر کے ایک نئے حصے میں متعدد کمپنیاں اپنے مرکزی دفاتر قائم کر رہی ہیں۔ اسی حصے میں پانچ ہزار پانچ سو کئی منزلہ عمارتیں بنائی گئی ہیں اور تقریباﹰ چالیس ہزار روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔