جرمن صدر شٹائن مائر کا ’امید اور یکجہتی‘ کا کرسمس کا پیغام
24 دسمبر 2020
وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر کے مطابق جرمن قوم کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پیدا شدہ بحرانی حالات کے بد ترین حصے سے کامیابی سے نکل چکی ہے اور اس بحران کی وجہ سے جرمنی میں عوامی یکجہتی میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
اشتہار
''میں دوبارہ اپنے خواب کب پورے کر سکوں گا؟ میرے جرمن ہم وطنو! یہ ان ہزاروں ذاتی پیغامات میں سے ایک ہے، جو مجھے ملک بھر سے موصول ہوئے ہیں۔‘‘ یہ وہ الفاظ تھے، جن کے ساتھ وفاقی جرمن صدر شٹائن مائر نے آج جمعرات چوبیس دسمبر کو کرسمس کی شام قوم سے اپنے روایتی نشریاتی پیغام کا آغاز کیا۔
ماضی میں جرمن سربراہان مملکت اپنے ایسے خطابات میں اہم سماجی موضوعات پر بات کرتے رہے ہیں لیکن ایسا پہلی بار ہوا کہ وفاقی صدر کے اس سالانہ خطاب کا موضوع زیادہ تر صرف ایک ہی تھا۔ یہ موضوع کورونا وائرس کی عالمی وبا تھا، جس نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا اور لاکھوں انسانوں کی جان لے لی اور جو ساری دنیا کے لیے بحرانی حالات کا سبب بنا۔
زندگی اور سوچ پر قبضہ کر لینے والا 'چھوٹا سا وائرس‘
صدر شٹائن مائر نے کہا کہ اس وبا کے دوران ایک 'چھوٹے سے وائرس‘ نے ہماری زندگیوں اور سوچوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ہم سب کے بہت سے منصوبے اور خواب ناکام ہو گئے۔ عام لوگوں کو فٹ بال میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیمز، فلم بینی کے لیے سینما گھروں میں اور میوزک کنسرٹس میں جانا حتیٰ کہ تعطیلات منانا اور اپنے پیاروں کی شادیوں تک میں شرکت کو ترک کرنا پڑا۔
جرمن صدر نے اسکولوں کے طلبا و طالبات میں پائی جانے والی مایوسی اور ریستورانوں کے مالکان کو ہونے والے اربوں یورو کے نقصانات کا بھی ذکر کیا۔
صدر شٹائن مائر نے کہا کہ اس سال دنیا بھر کے مسیحی پہلی بار بہت ہی مختلف انداز میں کرسمس کا مقدس تہوار منا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''یہ درست ہے کہ کرسمس کا تہوار محبت کا تہوار ہے۔ لیکن ہمیں اس کے باوجود اس سال یہ دن مناتے ہوئے اپنے ان رشتے داروں سے بھی دور رہنا ہو گا، جن کے ساتھ ماضی میں ہم ہر سال یہ تہوار مل کر مناتے تھے۔‘‘
جرمنی کے تمام شہروں میں کرسمس سے قبل رنگ برنگے اسٹالز پر مشتمل متعدد کرسمس بازار سجتے ہیں۔ جرمنی کی دس خوبصورت ترین کرسمس مارکیٹوں کا تصویری سفر کیجیے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/T. Becker
ڈریسڈن کا قدیم کرسمس بازار
پریوں کی کہانیاں، بیکری، دستکاری اور سرد موسم میں نوش کی جانے والی مصالحوں سے تیار کردہ ’گلو وائن‘ کے ساتھ یہاں میلے کا سما بندھ جاتا ہے۔ جرمنی کے مشرقی شہر ڈریسڈن میں سجنے والی ’اشٹریسل مارکیٹ‘ نامی کرسمس مارکیٹ روایتی اور لذیذ پکوانوں کے لیے بھی جانی جاتی ہے۔ سن 1434 سے سجنے والی یہ کرسمس مارکیٹ جرمنی کی قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert
نورمبرگ کی کرسمس مارکیٹ
جرمنی کے جنوب مشرقی شہر نورمبرگ کی ’کرسٹ کنڈل مارکٹ‘ اپنی ایک خاص روایت کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہاں ہر دو سال بعد اس مارکیٹ کا افتتاح ایک ایسا ایک کم عمر بچہ کرتا ہے، جسے ’کرسٹ کنڈ‘ یا ’کم عمر یسوح‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم اس سال ایک بھارتی نژاد جرمن شہری کی بیٹی بینگنا منسی کا انتخاب کیا گیا۔ اس وجہ سے دائیں بازو کے انتہا پسند حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/D. Karmann
کولون میں روشنیوں سے جگمگاتی کرسمس مارکیٹ
ہر سال قریب چار ملین افراد کولون کے کرسمس بازار کا رخ کرتے ہیں۔ جرمنی کے معروف ترین لینڈ مارکس یا عمارات میں سے ایک کولون کیتھڈرل کے سامنے سجنے والے اس بازار میں پچیس میٹر طویل کرسمس درخت بھی لگایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/S. Lubenow
ہیمبرگ میں خزانے سے بھری کرسمس مارکیٹ
ہیمبرگ کے تاریخی کرسمس بازار میں بہت سارے خزانے بھی موجود ہوتے ہیں، خاص طور پر کرسمس درخت کو ’گولڈن ایپل ‘ یعنی سنہری سیبوں کے ساتھ سجایا جاتا ہے۔ ہیمبرگ کے سٹی حال کے سامنے سجا ہوا یہ بازار دسمبر کی بارہ تاریخ تک کھلتا ہے۔
تصویر: picture alliance / Daniel Kalker
روٹھنبرگ آب دیر ٹاؤبر: قرون وسطیٰ کے دور میں واپسی
جرمن صوبے باویریا کے ایک چھوٹے سے قصبے ’روٹھنبرگ آب دیر ٹاؤبر‘ کی انوکھی کرسمس مارکیٹ کو ’رائٹرلیس مارکیٹ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز جرمنی کی ایک افسانوی شخصیت، رائٹرل سے ہوا، جس کو خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ قرون وسطیٰ دور کی روایات کی یاد دلاتی اس مارکیٹ میں سارا سال کرسمس درخت کی سجاوٹ کا سامان نظر آتے ہیں۔
تصویر: Imago Images/P. Widmann
لُڈوگس برگ: گولڈن اینجلز سے سجی کرسمس مارکیٹ
’لڈوگس برگ باروک کرسمس مارکیٹ‘ میں 180 سے زائد اسٹالز کا خاص انداز میں بندوبست کیا جاتا ہے۔ کرسمس کے سیزن کے دوران شہر کی سڑکوں اور مشہور باروک لڈوگس برگ محل کے باغات قابل دید ہوتے ہیں۔ خاص طور پر روشنی کے سنہری فرشتے، جو اسٹالز کے اوپر رات میں جگمگاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/W. Dieterich
گینگن باخ: کھل جا سم سم!
جنوبی جرمن علاقے بلیک فاریسٹ میں واقع گینگن باخ کی ’ایڈونٹ کرسمس مارکیٹ‘ میں چوبیس دروازے سجائے جاتے ہیں۔ تیس نومبر سے چوبیس دسمبر تک کرسمس مارکیٹ کے وسط میں ٹاؤن ہال کی عمارت ایک ’ایڈونٹ کیلنڈر‘ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس عمارت کی ہر روز ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے، جس میں ایک عالمی شہرت یافتہ فن پارہ پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/D. Schoenen
روشٹاک: سمندر کنارے سجی کرسمس مارکیٹ
کرسمس سیزن کے دوران روشٹاک شہر کا مرکز شمالی جرمنی کی سب سے بڑی کرسمس مارکیٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ تین کلومیٹر طویل اس کرسمس بازار میں 250 اسٹالز اور متعدد جھولے لگائے گئے۔ بحیرہ بالٹک کے ساحل کے قریب سجے کرسمس بازار میں آپ کو مختلف ممالک سے ہر طرح کی خصوصیات اور دستکاری ملیں گی۔
تصویر: Imago Images/Bildwerk
شوائن ہُٹ: جادوئی کرسمس مارکیٹ
باویریا کے جنگلات کے وسط میں واقع ’شوائن ہُٹ ‘ اور ’بیٹمان سیگے ‘ گاؤں میں ایک جادوئی کرسمس مارکیٹ سجائی جاتی ہے۔ اس بازار میں لوگ خیموں کے سامنے آگ لگا کر بیٹھ کے کہانیاں سناتے ہیں، اور ہر طرح کی دستکاری خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ حاضرین ’چڑیلوں والی شراب‘ پی سکتے ہیں۔
تصویر: Waldweihnacht Schweinhütt GbR
دراخن برگ میں کرسمس کہانیاں حقیقت بن گئیں
دراخن برگ کاسل میں سجی کرسمس مارکیٹ آپ کو 19ویں صدی کے دور میں واپس لے جاتی ہے۔ یہاں ’چارلس ڈِکنس‘ کی مشہور کرسمس کہانی کے کرداروں کو حقیقی شکل دی جاتی ہے۔ یہ کاسل کرسمس سے چار ہفتے قبل کھلتی ہے، جس میں پچاس سے زائد نمائش کنندگان مختلف مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔
تصویر: Schloss Drachenburg gGmbH/Reinelt
10 تصاویر1 | 10
اس موقع پر صدر شٹائن مائر نے ایسے تمام شہریوں کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار بھی کیا، جن کے اہل خانہ یا رشتے دار کورونا وائرس کا شکار ہو کر اس وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں یا تو ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں یا انتقال کر چکے ہیں۔
اشتہار
'ہمارا ملک ایک مضبوط ملک ہے‘
جرمن صدر نےاپنے ہم وطن باشندوں سے خطاب میں کہا کہ اس بحران نے ثابت کر دیا ہے کہ جرمنی ایک مضبوط ملک ہے اور جرمن عوام شدید بحرانی حالات میں بھی آپس میں یکجہتی کا اظہار کرنا جانتے ہیں۔
فرانک والٹر شٹائن مائر نے زور دے کر کہا، ''اس بحران کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عوامی یکجہتی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم سب ملک کر کام کریں اور اپنے حصے کی ذمے داریاں ادا کرتے رہیں، اور ساتھ ہی ریاست بھی اپنے فرائض کامیابی سے انجام دیتی رہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ جرمنی کووڈ انیس نامی بیماری کی عالمی وبا کی وجہ سے اپنے ہاں پیدا شدہ بحران پر پوری طرح قابو نا پا سکے۔‘‘
کرسٹوف ہاسل باخ (م م / ا ا)
جرمنی میں کرسمس کی روایات
کرسمس کے موقع پر مذہبی سروس، شام ڈھلے تحائف کا تبادلہ اور پھر دوست احباب کے ساتھ کسی پَب میں جا کر پینا پلانا اور گپ شپ لگانا کرسمس کی شام جرمن روایات کا لازمی حصہ ہوتا ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ روایات بدل بھی رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چمکتی دمکتی اَشیاء سے سجا کرسمس ٹری
ایک زمانے میں کرسمس ٹری چھت سے لٹکا ہوتا تھا جبکہ آج کل اسے کمرے کے ایک کونے میں رکھا جاتا ہے۔ کرسمس ٹری کو اس تہوار کی سجاوٹ میں مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
تصویر: Fotolia/megakunstfoto
سادہ کھانا
چوبیس دسمبر کو صبح کے وقت لوگ باقی ماندہ تحائف خریدنے کے لیے بازار کا رخ کرتے ہیں، دوپہر کو کرسمس ٹری کو سجاتے ہیں اور سہ پہر کو مذہبی سروس میں شرکت کے لیے چرچ جاتے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر کنبوں کے لیے یہ دن مصروفیات سے پُر ہوتا ہے، اس لیے شام کا کھانا سادہ ہی ہوتا ہے، یعنی آلو کا سلاد اور قیمہ بھری آنت۔ بطخ کے گوشت کا مرغن کھانا کرسمس کے باقی دنوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
تصویر: imago
کرسمس بازاروں کی رونق
دیکھا جائے تو کرسمس بازار کرسمس کا لازمی حصہ نہیں ہوتے اور بہت سے مقامات پر چوبیس دسمبر سے پہلے ہی یہ بازار بند ہو جاتے ہیں تاہم بہت سے مقامی باشندوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے آنے والے ہزاروں سیاح بھی آخر وقت تک نیورمبرگ اور ڈریسڈن جیسے شہروں کے مشہور کرسمس بازاروں کو ضرور دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Broll
کرسمس کی داستان، مجسموں کی شکل میں
کرسمس کے دنوں میں بہت سے جرمن شہری اپنے گھروں کو حضرتِ عیسیٰ اور اُن کی والدہ حضرت مریم کے لکڑی کے بنے مجسموں سے سجاتے ہیں۔ یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ایک دور میں اس طرح کے مجسمے اُن عقیدت مندوں کے لیے بنائے جاتے تھے، جو پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے مسیحیت کے ابتدائی دنوں کی داستان پڑھنے سے قاصر ہوا کرتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
شمالی جرمن ثقافتی روایات
ایک زمانے میں کرسمس سے پہلے کے ہفتوں میں روزے رکھنے کا رواج تھا اور خاص طور پر بچوں کو یہ بتانے کے لیے کہ روزے ختم ہونے میں ابھی کتنے ہفتے باقی ہیں، اُنیس ویں صدی میں شمالی جرمنی میں چار بڑی موم بتیوں کی روایت شروع کی گئی۔ ہر نئے ہفتے کے آغاز پر ایک نئی موم بتی جلائی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تحائف کا تبادلہ چوبیس دسمبر کو ہی
جرمنی میں تحائف کے منتظر بے صبرے افراد کو کرسمس کے دن تک کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ روایت یہ ہے کہ کرسمس سے ایک شام قبل ہی یہ تحائف تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ یہ تحائف عموماً بہت زیادہ مہنگے نہیں ہوتے بلکہ ایک سروے کے مطابق تو تقریباً ایک تہائی جرمن شہریوں کے لیے اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر گزارا گیا وقت مثلاً سیر و تفریح ہی کافی ہوتا ہے اور ان کے لیے بہت زیادہ خوشی کا باعث بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دستکاری کے خصوصی نمونے
جرمن صوبے سیکسنی کے علاقے اَیرس ماؤنٹینز کی لکڑی کو تراش کر بنائی گئی دستکاری مصنوعات جرمنی ہی نہیں پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ لوگ دسمبر کے اوائل ہی سے انہیں گھروں کی زینت بنانا شروع کر دیتے ہیں تاہم بہت سے جرمن گھرانوں میں امریکا سے آئی ہوئی مصنوعات مثلاً پلاسٹک کے سانتا کلاز یا پھر برقی قمقموں کے استعمال کا بھی رجحان بڑھ رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کرسمس کی خصوصی مٹھائیاں
اس مسیحی تہوار کے موقع پر دیگر مٹھائیوں کے ساتھ ساتھ یہ خصوصی کیک بھی شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اس میں بادام اور کشمش وغیرہ ڈالے جاتے ہیں۔ جرمن شہر ڈریسڈن کے کرسمس کیک خاص طور پر مشہور ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کرسمس سے ایک روز پہلے کی لمبی شام
جب چوبیس دسمبر کو تحائف کا تبادلہ مکمل ہو جاتا ہے اور رات کا کھانا بھی کھا لیا جاتا ہے تو بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں شہر میں سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔ تب کیفے ہاؤسز اور ریستورانوں میں اسکول کے دور کے پرانے دوستوں سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہر چھٹا جرمن شہری چوبیس دسمبر کی شام ایسے ہی گزارتا ہے۔
تصویر: DW/M. Mohseni
سوئٹزرلینڈ سے درآمدہ نئی روایت
بطخ کا بھنا ہوا گوشت، اُبلے ہوئے آلو یا آٹے کے پیڑے جنہیں بھاپ میں پکایا جاتا ہے اور سرخ رنگ کی بند گوبھی، کرسمس کی شام کا یہ کھانا بہت سے جرمنوں میں بچپن کی یادیں تازہ کر دیتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے سوئٹزرلینڈ سے آئی ہوئی اور پنیر سے بنی ہوئی ایک روایتی ڈِش جرمن باورچی خانوں میں پہنچ چکی ہے اور کرسمس کے موقع پر شوق سے کھائی جاتی ہے۔