1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن صدر نے یونان میں نازی دور کے جرائم پر معافی مانگ لی

1 نومبر 2024

جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی فوجیوں کے ہاتھوں مسمار کردہ ایک یونانی گاؤں کا دورہ کیا۔ تاہم جرمن صدر نے نازیوں کے قبضے کے حوالے سے زر تلافی کی ادائیگی کے یونانی مطالبات مسترد کر دیے۔

جرمن صدر کا کنڈانوس کا دورہ
یونان پر نازیوں کا قبضہ سن 1941 اور 1944 کے درمیانی عرصے میں جاری رہا تھا اور قحط کے ساتھ ساتھ یونان کی تقریباﹰ نوے فیصد یہودی برادری کے خاتمے کے باعث یہ یورپ کے خونریز ترین واقعات میں سے ایک تھاتصویر: One Inch Productions/IMAGO

وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے جمعرات کے روز یونان کے اس گاؤں کے دورے کے دوران اپنی اور جرمنی کی طرف سے معذرت کی، جسے نازی فوجیوں نے دوسری عالی جنگ کے دوران یونان پر قبضے کے دور میں مسمار کر دیا تھا۔

صدر اشٹائن مائر ایسے پہلے جرمن سربراہ مملکت ہیں، جنہوں نے کریٹے کے جزیرے پر کنڈانوس نامی اس گاؤں کا دورہ کیا۔

وفاقی جرمن صدر نے اس موقع پر کہا، ’’میں آپ سے، تب زندہ بچ جانے والے تمام افراد اور ان کی اولاد سے ان سنگین جرائم کے لیے معافی مانگتا ہوں، جو جرمنوں نے یہاں کیے تھے۔‘‘

یونان میں مشرقی بحیرہ ایجیئن کے جزائر پر جرمن وزیر خارجہ نے جو کہا، ترکی اس سے ناراض ہے

اس دور میں نازی قبضے کے خلاف یونانی مزاحمت کے سبب 25 جرمن چھاتہ بردار اور عام فوجی ہلاک ہو گئے تھے، جس کے بعد انتقامی کارروائی کے طور پر نازی دستوں نے کنڈانوس نامی گاؤں کو تین جون 1941 کو مسمار کر دیا تھا۔

یہ واقعہ نازی فوجیوں کے کریٹے کے یونانی جزیرے پر قبضے کے چند دن بعد پیش آیا تھا۔ یونان بھر میں ایسے تقریباً 120 ’’شہیدوں کے گاؤں‘‘ ہیں، جن میں سے کنڈانوس ایک ہے۔

مجبور انسانیت اور جرمنی کا المیہ

وفاقی جرمن صدر نے کیا کہا؟

جرمن صدر نے اس گاؤں کو ’’جرمنوں کو شرمسار کر دینے والی جگہ‘‘ کے طور پر بیان کیا اور کہا، ’’میرے لیے جرمن صدر کے طور پر اس مقام پر آنا اور یہاں بات کرنا ایک مشکل راستہ تھا۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’جرمن قابضین کی بربریت، ظلم اور غیر انسانی سلوک ایسے تھے کہ میرا دم گھٹتا جا رہا ہے، خاص طور پر آج کے دن۔ اور ان سب باتوں کے باوجود آپ نے ہماری جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا۔ اس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔‘‘

یونان سے سینکڑوں کم عمر مہاجرین کو جرمنی لانے کا سلسلہ شروع

جرمن صدر اشٹائن مائر نے اس بات کے لیے بھی اپنی طرف سے معذرت کی کہ جرمنی نے ان جرائم کی سزا دینے کے لیے کئی دہائیوں تک ٹال مٹول سے کام لیا اور جنگ کے بعد بننے والی جرمن حکومتوں نے ’’اسے نظر انداز کیا اور خاموش رہیں۔‘‘

جرمن صدر نے تب زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک خاتون اور اس وقت 97 سالہ ڈیسپینا فیوٹاکی سے بھی بات کی، جو وہاں سوگ کی علامت کے طور پر سیاہ لباس میں ملبوس بیٹھی تھیںتصویر: One Inch Productions/IMAGO

اس گاؤں میں نازیوں کے ہاتھوں قتل عام میں زندہ بچ جانے والے متعدد افراد نے جرمن صدر کو وہاں پہنچنے پر خوش آمدید کہا۔ تاہم اس موقع پر ہجوم میں سے کچھ افراد نے ’انصاف‘ اور ’لڑائی جاری ہے‘ جیسے نعرے بھی بلند کیے اور جنگ سے متعلق زر تلافی کی ادائیگی کے یونانی مطالبات پر جرمنی کے مسلسل انکار کے خلاف آواز اٹھائی۔

جرمن صدر نے تب زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک خاتون اور اس وقت 97 سالہ ڈیسپینا فیوٹاکی سے بھی بات کی، جو وہاں سوگ کی علامت کے طور پر سیاہ لباس میں ملبوس بیٹھی تھیں۔

یونانی جزیروں سے ہزارہا مہاجرین کو جرمنی لایا جائے، ہابیک

انہوں نے نازی قبضے کے ’’سیاہ دنوں‘‘ کو یاد کرتے ہوئے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’تب جرمنوں نے ہمیں جلا ڈالا تھا، انہوں نے ہمیں تباہ کر دیا تھا۔‘‘

یونان پر نازیوں کا قبضہ سن 1941 اور 1944 کے درمیانی عرصے میں جاری رہا تھا اور قحط کے ساتھ ساتھ یونان کی تقریباﹰ نوے فیصد یہودی برادری کے خاتمے کے باعث یہ یورپ کے خونریز ترین واقعات میں سے ایک تھا۔

جرمن نازیوں نے یونان کے مرکزی بینک سے زبردستی قرضہ بھی وصول کیا تھا، جو کبھی واپس نہ کیا گیا۔

معاوضے کے مطالبات مسترد

جرمن صدر کے اس دورے کے دوران یونان کے خلاف نازیوں کے جرائم کے باعث زر تلافی کی ادائیگی کے لیے بھی زور شور سے آواز اٹھائی گئی۔

یونانی وزیر اعظم مٹسوٹاکس  نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں اس بات پر زور دیا تھا کہ مالی تلافی کا مسئلہ ’’اب بھی پوری طرح سے زندہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ کسی نہ کسی وقت ہم اسے حل کر لیں گے۔‘‘

تاہم جرمن صدر نے جرمنی کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ برلن حکومت معاوضے کے معاملے کو ’’بین الاقوامی قانون کے تحت بند ہو چکا باب‘‘ سمجھتی ہے۔ البتہ انہوں نے کہا کہ قبضے کے حوالے سے جرمنی ’’اپنی تاریخی ذمہ داری کے لیے پرعزم‘‘ ہے۔

اس کے بعد کنڈانوس میں جرمن صدر نے ’’ان واقعات کی یاد کو زندہ رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ تب جو کچھ بھی ہوا، اسے دوبارہ کبھی دہرایا نہ جا سکے۔‘‘

ص ز/ م م (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں