جرمن صدر پیر سے امریکا کا تین روزہ دورہ شروع کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ ریاست کیلیفورنیا میں واقع جرمن ادیب تھوماس من کے گھر کو یادگاری مرکز بنانے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے۔ تاہم امریکی صدر سے ان کی ملاقات نہیں گی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر اپنے تین روزہ دورہ امریکا کے دوران نوبل انعام یافتہ مشہور جرمن ادیب تھوماس من کے گھر کو یادگار بنانے کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوں گے۔
جرمن حکومت نے سن 2016 میں اس گھر کو خرید لیا تھا تاکہ اس کو پہنچنے والے نقصان کو روکا جا سکے۔ اب اس کی بحالی کے بعد اس گھر کو میموریل کا درجہ دے کر جرمن اسکالرز کے لیے قیام گاہ بھی بنا دیا گیا ہے۔
لاس اینجلس کے قریب واقع تھوماس مَن ہاؤس کی افتتاحی تقریب منگل کی شام منعقد کی جائے گی، جس کے بعد فرانک والٹر شٹائن مائر اس تقریب کے شرکا سے خطاب بھی کریں گے۔ تھوماس مَن جرمن نازی دور حکومت کے دوران سن 1942 میں امریکا منتقل ہو گئے تھے اور انہوں نے دس برس کا عرصہ اسی گھر میں گزارا تھا۔
یہی وہ گھر ہے جہاں تھوماس من نے ‘جوزف اینڈ ہیز برادرز‘، ’ڈاکٹر فاؤسٹس‘ اور دی ہولی سِنر‘ جیسے شاہکار تحریر کیے۔ تھوماس من کو سن 1929 میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نازی دور حکومت کے کڑے ناقد تھوماس من کو نہ صرف جرمنی بلکہ دنیا بھر میں مزاحمت کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
جرمن صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اشٹائن مائر امریکا کا پہلا دورہ کر رہے ہیں۔ سابق وزیر داخلہ شٹائن مائر امریکا میں قیام کے دوران اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات نہیں کریں گے۔ شٹائن مائر کے ساتھ تھوماس من کے پوتے فریڈو من بھی امریکا کا دورہ کر رہے ہیں۔ فریڈو من نے بھی اپنے بچپن کا کچھ وقت اس گھر میں بسر کیا تھا۔
جرمن صدر شٹائن مائر امریکا میں قیام کے دوران سلیکون ویلی کے متعدد کاروباری حضرات کے علاوہ کیلیفونیا کے گورنر جیری براؤن سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ بتایا گیا ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس بھی شٹائن مائر سے ایک ملاقات کریں گی۔ شٹائن مائر نے اپنے اس دورے کو امریکا اور یورپ کے مابین تجارتی امور اور دیگر شعبہ جات میں باہمی تعلقات کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے
یورپ اور امریکا کے تجارتی تعلقات
یورپی یونین اور امریکا ایک دوسرے کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹیں رہی ہیں۔ ڈالتے ہیں ایک نظر ان دونوں خطوں کے درمیان درآمدات و برآمدات پر اور جانتے ہیں وہ کون سی انڈسٹری ہیں جو تجارتی جنگ سے متاثر ہوں گی۔
تصویر: Imago/Hoch Zwei Stock/Angerer
ٹریلین یورو سے زائد کی تجارت
یورپی یونین، امریکا کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے جہاں امریکا کی مجموعی برآمدات کا پانچواں حصہ اپنی کھپت دیکھتا ہے۔ اسی طرح یورپی برآمدات کا پانچواں حصہ امریکی مارکیٹ کا حصہ بنتا ہے۔ سال 2017ء میں دونوں خطوں کے درمیان ساز وسامان اور سروس کی مد میں 1,069.3 بلین یورو کی تجارت ہوئی۔ یورپ نے امریکا سے 256.2 بلین یورو کا سامان درآمد کیا اور 375.8 بلین یورو کا تجارتی مال برآمد کیا۔
تصویر: Imago/Hoch Zwei Stock/Angerer
تجارتی سرپلس
یورپ اور امریکا کے درمیان زیادہ تر مشینری، گاڑیوں، کیمیکلز اور تیار کیے گئے ساز و سامان کی درآمد و برآمد ہوتی ہے۔ ان تینوں کیٹگریوں کے علاوہ کھانے پینے کی تجارت سے یورپ کو تجارت میں بچت یا سرپلس ملتا ہے۔ جبکہ امریکا کو توانائی اور خام مال کی تجارت پر سرپلس حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters
چوٹی کی برآمدات ، گاڑیاں اور مشینری
یورپ امریکا کو گاڑیوں اور مشینری کی مد میں سب سے بڑی برآمد کرتا ہے جس کا حجم 167 بلین یورو ہے
تصویر: picture-alliance/U. Baumgarten
محاصل میں اضافہ
اس برس مئی کے اختتام پر ٹرمپ انتظامیہ نے یورپ کے لیے اسٹیل پر 25 فیصد اور المونیم پر 10 فیصد محصولات عائد کر دی ہیں۔ امریکا کو سن 2017ء میں 3.58 بلین یورو اسٹیل اور ایلمونیئم کی برآمد کی گئی۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
جوابی محاصل
امریکا کی جانب سے محصولات میں اضافہ عائد کرنے کے بعد یورپ کی جانب سے ان مصنوعات کی فہرست مرتب کی گئی ہے جس پر جوابی محصولات عائد کیے گیے ہیں۔ ان میں بعض روایتی امریکی مصنوعات ہیں مثلاﹰ پینٹ بٹر، بربن وہسکی، ہارلی ڈیوڈسن موٹرسائکل، جینز اور نارنگی کے جوس ۔ یورپ نے جن برآمدات کو ٹارگٹ کیا ہے ان سے امریکا کو سالانہ 2.8 بلین ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔
تصویر: Shaun Dunphy / CC BY-SA 2.0
سفری اور تعلیمی سروس
خدمات یا سروس کی مد میں یورپ درآمدات کی مد میں 219.3 بلین یورو اور برآمدات کی مد میں 218 بلین یورو کی تجارت کرتا ہے۔ ان میں پروفیشنل اور مینجمنٹ سروسز، سفر اور تعلیم سرفہرست ہیں۔