جرمنی میں یہودیوں کی موجودگی کے سترہ سو سالہ جشن کے موقع پر صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے جرمن سماج کو یہودیوں کے تعاون کی تعریف کی اور ان کی تاریخ پر 'ایماندارانہ نگاہ‘ ڈالنے کی اپیل کی۔
اشتہار
جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے جرمن ثقافت کومالا مال کرنے میں یہودیوں کے کردار کی تعریف کی۔ انہو ں نے کہا کہ اس ملک میں ان کی تاریخ ایک طرف''آزادی اور خوشحالی‘‘ کی تو دوسری طرف”تحقیر، جانبداری اور حق رائے دہی سے محرومی" کی رہی ہے۔
کولون کے ایک سیناگاگ میں اتوار کے روز جرمنی میں یہودیوں کی موجودگی کے سترہ سو برسوں کی مناسبت سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اشٹائن مائر نے کہا ”فلسفہ، ادب، آرٹ اور موسیقی ہو یا سائنس، طب اور تجارت، یہودیوں نے ہماری تاریخ کو بنانے اور ہمارے کلچر کو روشن کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔"
جرمن صدر نے کہا کہ جرمنی کو جدید دور میں لانے میں یہودیت نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
جانبداری اور ظلم و ستم
صدر اشٹائن مائر نے کہا کہ یہودیوں کے ساتھ دہائیوں تک جانبداری برتی گئی اور ان پر ظلم و ستم ہوا اور ہمیں یہودیت کی تاریخ کو”ایماندارانہ نگاہ" سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ”یہ واحد طریقہ ہے جس کی مدد سے ہم حال اور مستقبل کے لیے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے اور رہے گی۔“
جرمن صدر نے اعتراف کیا کہ سامیت مخالفت کی وجہ سے یہودیوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔
جرمن تاريخ کا ايک سياہ باب: یہودیوں کی املاک پر نازیوں کے حملے
نو اور دس نومبر 1938ء کو نازی جرمنی میں یہودی مخالف واقعات رونما ہوئے، جنہیں ’کرسٹال ناخٹ‘ یعنی ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات’ کہا جاتا ہے۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں اوراملاک پر حملوں کے نتیجے میں سڑکوں پر شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Schreiber
نو اور دس نومبرکی رات کیا ہوا تھا؟
نازی نیم فوجی دستے ’ایس اے‘ کی قیادت میں سامیت مخالف شہریوں کا مجمع جرمنی کی سڑکوں پر نکلا۔ مشرقی جرمن شہر کیمنٹس کی اس یہودی عبادت گاہ کی طرح دیگرعلاقوں میں بھی یہودیوں کی املاک پر حملے کیے گئے۔ اندازے کے مطابق صرف ایک رات میں یہودیوں کے زیر ملکیت کم ازکم ساڑھے سات ہزار کاروباری مراکز کو نقصان پہنچایا گیا اور سامان لوٹا گیا۔
تصویر: picture alliance
نام کے پیچھے کیا پوشیدہ ہےِ؟
جرمن یہودیوں کے خلاف ہونے والے اس تشدد کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ برلن میں اسے ’کرسٹال ناخٹ‘ (Night of Broken Glass) کہتے ہیں، جس کے اردو میں معنی ہیں ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات‘۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں، گھروں اور یہودیوں کے کاروباری مراکز پر منظم حملوں اور تباہی کے نتیجے میں جرمنی کی سڑکوں پر جگہ جگہ شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/akg-images
سرکاری موقف کیا تھا؟
یہ واقعات ایک جرمن سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے ایک سترہ سالہ یہودی ہیرشل گرنزپان کے ہاتھوں قتل کے بعد شروع ہوئے تھے۔ راتھ کو سات نومبر کو پیرس میں جرمن سفارت خانے میں قریب سے گولی ماری گئی تھی اور وہ ایک دن بعد انتقال کر گئے تھے۔ گرنزپان کو سزائے موت نہیں دی گئی تھی لیکن کسی کو یہ نہیں علم کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کيا گيا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Imagno/Schostal Archiv
حملے اور تشدد کیسے شروع ہوا؟
سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے قتل کے بعد اڈولف ہٹلر نے اپنے پروپگینڈا وزیر جوزیف گوئبلز کو یہ کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے قبل ہی کچھ مقامات پر ہنگامہ آرائی شروع ہو چکی تھی۔ گوئبلز نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نازی یہودیوں کے خلاف اچانک شروع ہونے والے کسی بھی احتجاج کو نہيں روکیں گے۔ اس دوران جرمنوں کی زندگیوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی بھی ہدایات دی گئی تھیں۔
تصویر: dpa/everettcollection
کیا یہ تشدد عوامی غصے کا اظہار تھا؟
ایسا نہیں تھا، بس یہ نازی جماعت کی سوچ کا عکاس تھا، لیکن کوئی بھی اسے سچ نہیں سمجھ رہا تھا۔ نازی دستاویزات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان حملوں اور تشدد کا منصوبہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا تھا۔ یہ غیر واضح ہے کہ اس بارے میں عام جرمن شہریوں کی رائے کیا تھی۔ اس تصویر میں ایک جوڑا ایک تباہ حال دکان کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی رائے رکھتی تھی۔
اپنے نسل پرستانہ نظریات کی وجہ سے نازی چاہتے تھے کہ یہودی رضاکارانہ طور پر جرمنی چھوڑ دیں۔ اس مقصد کے لیے یہودیوں کو سڑکوں پر گھمایا جاتا تھا ور سرعام ان کی تذلیل کی جاتی تھی۔ اس تصویر میں یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ نازیوں کے ظلم و ستم سے پریشان ہو کر فرار ہونے والے یہودیوں پر مختلف قسم کے محصولات عائد کیے گئے اور اکثر ان کی املاک بھی ضبط کر لی گئی تھیں۔
تصویر: gemeinfrei
کیا نازی اپنے مقصد میں کامیاب رہے؟
ان پرتشدد واقعات کے بعد جرمن یہودیوں اور ملک چھوڑ جانے والوں کو نازیوں کے ارادوں کے بارے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں رہے تھے۔ تاہم اس طرح کے کھلے عام تشدد پر غیر ملکی میڈیا میں کڑی تنقید کی گئی۔ اس کے بعد یہودیوں پر لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنے لباس پر پیلے رنگ کا ستارہ داودی لگا کر باہر نکلیں گے۔
تصویر: gemeinfrei
حملوں کے بعد کیا ہوا؟
ان حملوں کے بعد نازی حکام نے یہودی مخالف اقدامات کی بوچھاڑ کر دی، جن میں ایک طرح کا ایک ٹیکس بھی عائد کرنا تھا۔ اس کا مقصد ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والے نقصان کی ادائیگی تھا۔ کرسٹال ناخٹ اور اس کے بعد کی دیگر کارروائیوں میں ایک اندازے کے مطابق تقریباﹰ تیس ہزار یہودیوں کو قیدی بنا لیا گیا تھا، کئی ہلاک ہوئے اور باقی یہودیوں کو جرمن علاقوں کو چھوڑ کر چلے جانے کے وعدے کے بعد آزاد کیا گیا تھا۔
تصویر: AP
کرسٹال ناخٹ کا تاریخ میں کیا مقام ہے؟
1938ء میں ہولوکاسٹ یعنی یہودیوں کا قتل عام شروع ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے۔ عصر حاضر کے ایک تاریخ دان کے مطابق کرسٹال ناخٹ کے دوران کی جانے والی کارروائیوں کا مقصد یہودیوں کو اقتصادی اور سماجی طور پر تنہا کرنا تھا اور انہیں اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ جرمن علاقے چھوڑ دیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران91 یہودی شہری ہلاک ہوئے جبکہ کہا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
تصویر: Imago
9 تصاویر1 | 9
جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے صدر جوسف شوسٹر نے کہا کہ یہودی اداروں پر حالیہ حملے اور بڑھتی ہوئی سامیت مخالفت کے مد نظر یہودی یہ یادگاری سال نہیں منائیں گے۔
اسرائیلی صدر رووین ریولین نے جرمنی اور اسرائیل کے درمیان گہری دوستی پر زور دیتے ہوئے کہا”گو کہ ہم ماضی کے سانحوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے لیکن ہماری ایک مشترکہ وراثت ہے۔"
اشتہار
شرکاء کے بغیر پروگرام
کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس افتتاحی تقریب کو پہلے سے ہی ریکارڈ کرلیا گیا تھا اور تقریب کے دوران کوئی بھی موجود نہیں تھا۔
جرمنی میں آنے والے مہینوں میں یہودیت کے حوالے سے تقریباً ایک ہزار پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔
جرمنی میں یہودیوں کے سترہ سو برس تقریبات کے منتظم آندرئی کوواس نے ڈی ڈبلیو کو بتا یا ”ہم یہودیوں او رغیر یہودیوں کے درمیان کی مشترکہ تاریخ کو دکھانا چاہتے ہیں۔ ایک مشترکہ حال۔ جرمنی میں ڈیڑھ لاکھ یہودی رہتے ہیں اور ہم بھی ایک مشترکہ مستقبل چاہتے ہیں۔ اس مشترکہ مستقبل کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم کچھ معیاری وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزاریں اور ہمدردی کو فروغ دیں۔ اور اس ہمدردی کے ذریعہ ہی ہم سامیت مخالف اور سازشی نظریات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔"
ڈی ڈبلیو کی چیف سیاسی نامہ نگا ر ملینڈا کرین کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ہولوکاسٹ کے علاوہ بھی یہودیت کے لیے بہت کچھ ہے۔ ”یہودیوں نے سینکڑوں برسوں سے جرمن کلچر، جرمن شناخت اور جرمن تاریخ کو بہت کچھ دیا ہے۔ یہودیت اور جرمن کے درمیان تال میل کو ہولو کاسٹ تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ”جولوگ سامیت مخالف نظریات رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہودیت کوئی بیرونی چیز ہے۔ اس پورے سال کے دوران یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ یہودیت جرمنی کے لیے کوئی غیر ملکی چیز نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کی شناخت کا فطری حصہ ہے۔"
ج ا/ ص ز (کے این اے، اے ایف پی، ڈی پی اے، ای پی ڈی، ڈی ڈبلیو)
یہودی خاندان پر سامیت مخالف حملہ، مسلمان خاتون نے بچا لیا