جرمن صدر کا عید کے موقع پر پیغام اور مسلمانوں کا خصوصی شکریہ
12 مئی 2021
جرمن صدر اشٹائن مائر نے عید الفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں ملکی مسلم آبادی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شکر گزار ہیں کہ مسلمان مسلسل دوسرے برس یہ تہوار کورونا کے باعث عائد پابندیوں کا احترام کرتے ہوئے منائیں گے۔
اشتہار
جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے جرمنی میں مسلم برادری کے نام اپنے اس پیغام میں کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ مسلمان یہ اہم اسلامی تہوار مسلسل دوسرے سال بھی کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کے ماحول میں منائیں گے۔
جرمن چانسلر کی سیاسی جماعت کے ایک سینئیر اہلکار کے ایک حالیہ بیان نے ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ کوئی مسلمان بھی مستقبل کا جرمن چانسلر ہو سکتا ہے۔ اسی تناظر میں یورپ کے کامیاب مسلمان سیاستدانوں پر ایک نظر!
تصویر: Getty Images/AFP/O. Scarff
پاکستانی نژاد برطانوی مسلمہ اور بیرونس
سعیدہ وارثی (سامنے) برطانوی کابینہ میں شامل ہونے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ یہ سن دو ہزار دس سے بارہ تک کنزرویٹو پارٹی کی شریک چیئرپرسن بھی تھیں۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں وارثی نے وزیر اعظم ٹریزا مے سے مطالبہ کیا کہ وہ عوامی سطح پر قبول کریں کہ ان کی پارٹی کو اسلاموفوبیا کے مسائل کا سامنا ہے۔ ڈاؤننگ سٹریٹ میں ان کی پہلی میٹنگ کے دوران ان کے روایتی پاکستانی لباس کو بھی وجہ بحث بنایا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Scarff
فرانس اور یورپ کی آواز
مغربی دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد فرانس میں آباد ہے اور اسلام اس ملک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ لیکن آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کا سیاست میں کردار بہت ہی محدود ہے۔ رشیدہ داتی فرانسیسی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی چند مسلم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ سن دو ہزار سات سے دو ہزار نو تک وزیر انصاف بھی رہیں۔ اس وقت وہ یورپی پارلیمان کی رکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Huguen
ایک ڈچ نومسلم
ڈچ سیاستدان جورم وان کلیویرین اسلام کے سخت ناقد تھے۔ انہوں نے اسلام کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی۔ لیکن حال ہی میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ایک اسلام مخالف کتاب لکھنے کے دوران مسلمان ہو گئے تھے۔ ہالینڈ کے اسلام مخالف اور بہت متنازعہ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز نے اپنے اس دیرینہ ساتھی کے حوالے سے کہا تھا کہ ان کا اسلام قبول کرنا ایسے ہی ہے، جیسے ایک سبزی خور کو مذبحہ خانے میں ملازمت دے دی جائے۔
تصویر: AFP/Getty Images/ANP/B. Czerwinski
ہالینڈ کا مشہور میئر
احمد ابو طالب سن دو ہزار نو میں ڈچ شہر روٹرڈیم کے میئر بنے تھے۔ وہ ہالینڈ کے اولین تارک وطن میئر تھے۔ ابو طالب ان مسلمانوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جو رہائش کے لیے تو مغرب کا انتخاب کرتے ہیں لیکن آزادی اظہار کے مخالف ہیں۔ نیوز ایجنسی اے این پی کے ایک سروے کے مطابق سن دو ہزار پندرہ میں وہ ہالینڈ کے سب سے مقبول سیاستدان قرار پائے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Maat
اور برطانیہ میں
صادق خان سن دو ہزار سولہ سے لندن کے میئر ہیں۔ وہ سن دو ہزار پانچ سے سن دو ہزار سولہ تک لیبر پارٹی کی طرف سے رکن پارلیمان بھی رہے۔ بریگزٹ مہم میں ان کا موقف یہ تھا کہ یورپی یونین میں ہی رہا جائے۔ انہیں سن دو ہزار سولہ میں سال کا بہترین سیاستدان قرار دیتے ہوئے برٹش مسلم ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ ایک باعمل مسلمان ہیں اور باقاعدگی سے مسجد بھی جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yui Mok
جرمنی کا ’سیکولر مسلمان‘
ترک نژاد جرمن سیاستدان چَيم اؤزديمير گزشتہ کئی برسوں سے گرین پارٹی کا نمایاں ترین چہرہ ہیں۔ وہ سن دو ہزار آٹھ سے سن دو ہزار اٹھارہ تک اس ماحول پسند جرمن سیاسی جماعت کے شریک سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے دور اقتدار میں ترکی کے یورپی یونین کا حصہ بننے کے بھی خلاف ہیں۔ وہ خود کو ایک ’سیکولر مسلم‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Hirschberger
6 تصاویر1 | 6
تاہم صدر نے کہا کہ وہ اس سال بھی اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ معمول کے سماجی اور خاندانی اجتماعات کی صورت میں عید الفطر نا منا سکنے والے مسلمانوں کی طرف کورونا کی وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کا احترام کرنے پر دل سے ان کےشکر گزار ہیں۔
ساتھ ہی صدر اشٹائن مائر نے یہ بھی کہا کہ کورونا کی وبا پر قابو پانے کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں اور مستقبل میں حالات میں واضح بہتری کی قوی امید ہے۔
جرمن صدر نے کہا کہ ملک میں عام شہریوں کو کورونا ویکسین لگانے کی مہم تیزی سے جاری ہے اور اس کے نتائج اتنے امید افزا ہیں کہ جیسے مشکل حالات میں کسی طویل اور تاریک سرنگ کے اختتام پر دیکھنے والوں کو دور سے ہی روشنی نظر آنے لگی ہو۔
اشتہار
جرمنی میں عید الفطر
دنیا کے کئی ممالک کی طرح جرمنی میں بھی رمضان کے اسلامی مہینے کے اختتام پر عید الفطر کا مذہبی تہوار جمعرات تیرہ مئی کو منایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف کورونا کی وبا کی وجہ سے جرمنی میں بڑے بڑے عوامی گروپوں کی شکل میں عام شہریوں کے ایک دوسرے سے میل جول پر گزشتہ برس مارچ سے پابندی عائد ہے۔
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
یوں جرمنی میں مسلمانوں کے لیے یہ مسلسل دوسرا سال ہو گا کہ وہ عید الفطر کا تہوار ان پابندیوں کا احترام کرتے ہوئے اور اپنے گھروں میں صرف اہل خانہ کے ساتھ ہی منائیں گے۔
صدر اشٹائن مائر کا ویڈیو پیغام
عید الفطر سے ایک روز قبل جرمن سربراہ مملکت اشٹائن مائر نے بدھ بارہ مئی کو اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا، ''عید کا تہوار ہر کسی کے لیے ایک ایسا خیر مقدمی موقع ہوتا ہے، جو مسلمان اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ مناتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عید کے موقع پر بھی مسلسل دوسری بار یہ تہوار بڑے گروپوں کی صورت میں مل کر منانا ممکن نہیں ہو گا۔‘‘
صدر اشٹائن مائر نے کہا، ''میں ایک بار پھر جرمنی میں مسلمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس سال بھی رمضان کے مہینے میں بہت نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کورونا کے باعث پابندیوں کا احترام کیا اور ان میں پایا جانے والا یہ شعور بھی خصوصی تشکر کا مستحق ہے کہ وہ عید بھی صرف اپنے گھروں پر اور چھوٹے پیمانے پر ہی منا سکیں گے۔‘‘
مختلف ممالک میں ماہ رمضان کی رسوم
پیر کے روز یورپ اور دنیا کے مختلف ممالک میں پہلا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمان اس مہینے کا استقبال کیسے کرتے ہیں؟ دیکھیے اس پِکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
ساراجیوو – بوسنیا
سراجیوو میں مقامی روایات کے مطابق ہر روز افطار کے وقت توپ چلائی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
چاند دیکھنے کی روایت
تصویر میں تیونسی شہری دوربین کی مدد سے رمضان کا چاند دیکھ رہے ہیں۔ دوربین کے علاوہ کئی ملکوں میں کھلی آنکھوں سے چاند دیکھنے کی روایت بھی ہے، اسی لیے مختلف ممالک میں رمضان کا آغاز بھی مختلف دنوں میں ہوتا ہے۔
مصر میں ماہ رمضان کے دوران روایتی لالٹین روشن کرنا جزو لازم سمجھی جاتی ہے۔ قاہرہ کی شاہراہ سیدہ زینب پر رمضان شروع ہوتے ہی یہ لالٹینیں فروخت کے لیے رکھ دی گئی ہیں۔
تصویر: DW/A. Al Badry
استنبول کی نیلی مسجد میں نماز تراویح پڑھتی خواتین
استنبول کی سلطان احمد مسجد کو نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے روزے کے بعد ترک خواتین یہاں نماز تراویح پڑھ رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/E. Eladi
غزہ، فلسطین
مصر کی طرح غزہ کے بازاروں میں بھی رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی رنگ برنگی لالٹینیں روشن ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
تہران کے بازار اور افطاری کا سامان
ایران میں بھی افطار کے لیے خصوصی پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ تہران کے بازاروں میں رمضان کے آغاز سے ہی خریداروں کا رش بڑھ جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/F. Bahrami
پاکستان، کھجوریں اور پکوڑے
پاکستان بھر میں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں ہر طرف کھجوریں، پکوڑے اور سموسے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press
الجزائر، افطار اور مٹھائی
الجزائر میں رمضان کے مہینے میں شہد اور مٹھائی روزے رکھنے والوں میں مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Belghoul
کابل کی بیکریاں
کابل میں بھی رمضان کے مہینے میں بیکریوں میں مٹھائی خریدنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
9 تصاویر1 | 9
جرمنی میں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب
جرمنی کی تقریباﹰ 82 ملین کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد پانچ ملین کے قریب بنتی ہے۔ ان میں جرمن نژاد مسلمان بھی شامل ہیں اور وہ بھی جو تارکین وطن کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے مگر اب جرمن شہری ہیں۔
اس کے علاوہ ان مسلمانوں میں ایسے تارکین وطن اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں جو جرمن شہری تو نہیں ہیں مگر جرمنی میں مقیم اور معاشرے کا حصہ ہیں۔ جرمنی میں مسلمانوں کی آبادی میں بہت بڑی اکثریت ترک نژاد جرمن شہریوں یا ترک تارکین وطن اور ان کی نئی نسل کے افراد پر مشتمل ہے۔
انہی کئی ملین مسلمانوں کی وجہ سے اسلام جرمنی میں مسیحیت کے بعد دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔
م م / ک م (ڈی پی اے، کے این اے)
عید الفطر، خوشیوں کا تہوار
جمعرات 8 اگست کو یورپ اور امریکا میں مسلمان عید الفطر منا رہے ہیں۔ عیدالفطر ایک مذہبی تہوار ہے اور اسے ماہ رمضان کے اختتام پر منایا جاتا ہے۔
تصویر: Stan Honda/AFP/Getty Images
عید کے چاند کا انتظار
عید کا چاند ایک باریک سی لکیر کی طرح آسمان پر کچھ ہی دیر کے لیے دکھائی دیتا ہے۔ چاند نمودار ہونے کے ساتھ ہی رمضان کا اختتام ہو جاتا ہو۔ اس سال یورپ میں رمضان نو جولائی سے شروع ہو کر سات اگست تک جاری رہا۔ عام طور پر عید کا تہوار تین دن تک منایا جاتا ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
ایک تہوار کے مختلف نام
ترک برادری کی وجہ سے جرمنی میں عید الفطر ’بائرام‘ اور جرمن زبان میں ’سُوکر فَیسٹ‘ یعنی میٹھے تہوار کے نام سے مشہور ہے۔ دیگر ممالک میں یہ مسلم تہوار اس کے عربی نام ’عیدالفطر‘ سے ہی منایا جاتا ہے۔ مختلف خطوں اور علاقوں میں عید منانے کے انداز اور دورانیے ایک دوسرے سے جدا ہیں تاہم عید کی نماز پڑھنا لازمی ہے۔
تصویر: MUSTAFA OZER/AFP/Getty Images
تیاریوں کا جوش و خروش
رمضان کے مہینے میں ہی عید کی تیاریاں بھی شروع کر دی جاتی ہیں۔ عید کے روز کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور نئے ملبوسات پہنے جاتے ہیں۔ اس تصویر میں ایک افغان تاجر عید کی خریداری کے لیےخصوصی رعایتیں دے کر لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Spezalai
چاند رات بھی تہوار سے کم نہیں
پاکستان اور بھارت میں عید کا آغاز ایک طرح سے چاند دیکھنے کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔ عید سے پہلے کی رات چاند رات کہلاتی ہے۔ اس رات بڑے پیمانے پر خریداری کی جاتی ہے، خواتین عید کی خوشی میں مہندی لگاتی ہیں اور اس موقع پر دوستوں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو چاند رات کی مبارکباد بھی دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/Zohre Najwa
مسافروں کا بے پناہ رش
اسلامی سال چونکہ قمری سال ہوتا ہے، اس لیے صرف ایک رات پہلے ہی عید الفطر کا پتا چلتا ہے۔ عید کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی مختلف علاقوں میں رہائش پذیر بہت سے افراد اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید منانے کے لیے آبائی شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عید کے موقع پر انڈونیشیا کی ٹرینوں میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ اس رش کے باوجود لڑائی جھگڑے کے واقعات بہت ہی کم رونما ہوتے ہیں۔
تصویر: Getty Images
اہل خانہ کے ساتھ نماز عید
مذہبی طور پر اس تہوار کا آغاز نماز عید سے ہوتا ہے۔ جرمنی میں بہت سے خاندان مل کر عید کی نماز پڑھنے جاتے ہیں۔ یہاں متعدد مساجد میں خواتین اور مردوں کے لے الگ الگ ہال تعمیر کیے گئے ہیں۔ نماز کے بعد بہت سے افراد اپنے انتقال کر چکے رشتہ داروں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لیے بھی جاتے ہیں۔
تصویر: Barbara Sax/AFP/Getty Images
ناشتے میں میٹھی اشیاء
مسلم دنیا کے بہت سے ممالک میں نماز کے بعد ناشتہ کیا جاتا ہے اور عام طور پر اس میں صرف میٹھی چیزیں ہی پیش کی جاتی ہیں۔ فلسطین کی یہ تصویر کچھ اسی طرح کا منظر پیش کر رہی ہے۔ یہ مٹھائی پڑوسیوں اور دوستوں میں بھی تقسیم کی جاتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں عید پر خاص طور پر میٹھی سویاں کھائی جاتی ہیں۔ پھر بچوں کو پیسے دیے جاتے ہیں، جسے’عیدی‘ کہتے ہیں۔
تصویر: Said Khatib/AFP/Getty Images
موسیقی اور رقص
افریقی ملک برکینا فاسو اور اسی طرح بہت سے مسلم ممالک میں برادری اور شہری سطح پر عید منائی جاتی ہے۔ نوجوان سڑکوں پر مختلف اقسام کے آلات موسیقی بجاتے ہیں اور رقص کرتے ہیں۔ مسلم ممالک میں عید کے موقع پر چھٹیاں ہوتی ہیں اور لوگ ان دنوں کے دوران دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے جاتے ہیں۔
تصویر: Ahmed Ouoba/AFP/Getty Images
میلے کا سا سماں
عید کی چھٹیوں میں سڑکوں پر خصوصی طور پر کھانے پینے کی اشیاء اور بچوں کی دلچسپی کی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں ڈھاکا کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔ رمضان کے دوران کھانے پینے کی اشیاء افطار سے چند گھنٹے قبل ہی فروخت کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ پابندی کا خاتمہ اور اوقات کاروبار کا معمول پر آنا بھی لوگوں کی خوشی میں اضافہ کرتا ہے۔
تصویر: dapd
سجاوٹ اور چراغاں
عیدالفطر کا تہوار رات دیر گئے تک منایا جاتا ہے۔ کرسمس کی طرح عید کے موقع پر بھی گھروں کو سجایا جاتا ہے۔ مساجد اور گھروں کے علاوہ بہت سے خطوں میں تاریخی اور سرکاری عمارات کی آرائش بھی کی جاتی ہے۔ اس تصویر میں امپائر اسٹیٹ بلڈنگ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ 2007ء میں عید کے موقع پر اس بلڈنگ کو بھی سجایا گیا تھا۔