ایک جرمن صوبے کی مہاجرین کے حوالے سے نئے قانون کی تیاری
29 مئی 2018
آبادی کے لحاظ سے جرمنی کی سب سے بڑی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومت اور جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے درمیان مہاجرت اور سماجی انضمام کے حوالے سے سیاست میں کھینچا تانی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے وزیر برائے سماجی انضمام یو آخم شٹامپ مہاجرین کے حوالے سے نسبتاﹰ سخت اقدام اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ جرمن ریاست تارکین وطن کے جرمنی میں مستقبل اور سماجی انضمام کے معاملے پر اب کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی خواہاں ہے۔
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے سماجی انضمام کے وزیر یوآخم شٹامپ کئی ہفتوں سے وفاقی حکومت کو مہاجرین کے موضوع پر ایک کانفرنس کرانے پر مائل کر رہے ہیں جس میں تمام جرمن ریاستوں کے سربراہان کے علاوہ مقامی حکومتوں کے نمائندے بھی شرکت کریں۔
اس مجوزہ کانفرنس میں شٹامپ پناہ کی درخواستوں پر عمل کے طریقہ کار کو تیز رفتار بنانے سے متعلق معاہدوں کے علاوہ مہاجرت کے حوالے سے ایک نئے ممکنہ قانون کے اہم نکات پر بھی بات کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ جرمن وزیر داخلہ زیہوفر اس خیال سے متفق نہیں ہیں۔
ہورسٹ زیہوفر نے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں بھیجے گئے خط کا کئی ہفتوں سے جواب نہیں دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی وزیر برائے سماجی انضمام یو آخم نے زیہوفر کے اس رد عمل پر سخت موقف اپنایا ہے۔ زیہوفر کے نام ایک دوسرے خط میں یوآخم نے جرمن وزیر داخلہ کو انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر تمام سولہ ریاستوں کے سربراہان کا اجلاس طلب کریں تاکہ مہاجرین کے حوالے سے پالیسیوں اور اُن کے معاشرتی انضمام کے معاملے پر آگے بڑھا جا سکے۔
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفرتصویر: Imago/J. Schicke
یوآخم شٹامپ جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے آغاز کردہ تارکین وطن کے لیے خصوصی مراکز کے قیام کے منصوبے کے حوالے سے بھی شک و شبہات کا شکار ہیں۔
جرمنی کی مخلوط حکومت کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تمام غیر ملکیوں کو ان کی درخواستوں پر فیصلوں تک رکھے جانے والےخصوصی مراکز کی تیاری کا پہلا مرحلہ سن 2018 کے موسم خزاں تک مکمل ہو جائے گا۔
ان خصوصی مراکز میں قریب پندرہ سو مہاجرین کو پناہ ملنے یا پھر اُن کی پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اُنہیں ڈی پورٹ کیے جانے تک رکھا جائے گا۔ اصولی طور پر نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومت مہاجرین کے لیے قائم کیے جانے والے ایسے خصوصی مراکز کے خلاف نہیں ہے لیکن وہ اس حوالے سے مزید وضاحت چاہتی ہے۔
موسم گرما میں چھٹیوں کے وقفے کے بعد نارتھ رائن ویسٹ فیلیا صوبے کی حکو مت کا ارادہ ہے کہ ایک مجوزہ بل کے ذریعے زیہوفر پر مہاجرت کے حوالے سے نیا قانون بنانے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
ص ح/ کے این اے
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔