جرمن صوبے باویریا کا اپنی سرحدی پولیس کے قیام کا فیصلہ
12 جولائی 2018
باویریا کی پارلیمان نے اپنی سرحدی پولیس کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ ساتھ ہی اس بارے میں ایک قرارداد بھی منظور کر لی گئی کہ باویریا سیاسی پناہ اور تارکین وطن کی ملک بدری سے متعلق اپنا ایک صوبائی رابطہ دفتر قائم کرے گا۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بدھ کے دن بتایا ہے کہ جرمن صوبے باویریا کی پارلیمان نے ایک ایسی سرحدی پولیس فورس کے قیام کی منظوری دے دی ہے، جو اس صوبے کی بین الاقوامی سرحدوں کی نگرانی کرے گی۔
نئی باویرین بارڈر پولیس کے اختیارات سے متعلق تفصیلات اسی ہفتے باویریا اور وفاقی حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات میں طے کر لی جائیں گی۔ یہ نئی پولیس اگست میں کام کرنا شروع کر دے گی اور اس کی نفری قریب ایک ہزار ہو گی۔
سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ باویریا صوبے کی پارلیمان نے ایک ایسی قرارداد بھی منظور کر لی ہے، جس کے مطابق باویریا صوبے میں سیاسی پناہ اور تارکین وطن کی ملک بدری سے متعلق اپنا ایک صوبائی رابطہ دفتر بھی قائم کیا جائے گا۔
باویریا میں تارکین وطن کو سیاسی پناہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ آئندہ بھی جرمنی کا وفاقی دفتر برائے مہاجرین اور ترک وطن ہی کیا کرے گا۔
بتایا گیا ہے کہ باویریا صوبے کی پارلیمان کے نوّے اراکین نے اس قانون کی حمایت کر دی ہے جبکہ باسٹھ نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اس صوبے میں برسر اقتدار سوشل ڈیموکریٹک یونین (سی ایس یو) کے مطابق ان اقدامات سے سکیورٹی کی صورتحال کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے گی۔
دوسری طرف اس صوبے میں اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) ، گرین اور آزاد ارکان پارلیمان نے اس قانون کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اکتوبر میں ہونے والے صوبائی انتخابات سے قبل کیے گئے یہ اقدامات دراصل ’عوامیت پسندی‘ پر مبنی ہیں اور اس کا مقصد صرف ووٹرز کو لبھانا ہے۔
جرمنی کے اس جنوبی صوبے میں سی ایس یو کو قطعی اکثریت حاصل ہے تاہم عوامی جائزوں کے مطابق آئندہ صوبائی انتخابات میں اس پارٹی کی عوامی حمایت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ جرمنی میں مہاجرین کے بحران کی وجہ سے دائیں بازو کی مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اس مظہر کی وجہ سے مرکزی سیاسی پارٹیاں کچھ پریشان بھی ہیں۔
ع ب / ا ا / خبر رساں ادارے
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔