جرمن صوبے تھیورنگیا کے الیکشن: میرکل حکومت کے لیے بڑا دھچکا
28 اکتوبر 2019
جرمن صوبے تھیورنگیا میں اتوار ستائیس اکتوبر کے پارلیمانی الیکشن کے نتائج سے برلن میں چانسلر میرکل کی قیادت میں وسیع تر مخلوط حکومت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ میرکل کی پارٹی کی حمایت میں گیارہ فیصد سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔
وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: Reuters/M. Tantussi
اشتہار
جرمنی کے مشرقی صوبے تھیورنگیا کی ریاستی پارلیمان کے انتخابات کے نتائج برلن میں وفاقی مخلوط حکومت میں شامل ملک کے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کو حاصل عوامی تائید میں اس قدر کمی دیکھی گئی کہ میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے رہنما یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہو کیا رہا ہے؟
سی ڈی یو کو اس الیکشن میں صرف 22 فیصد ووٹ ملے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسی ریاست میں گزشتہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے مقابلے میں اس کو حاصل تائید میں 11 فیصد سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔
اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ حقیقت کا سامنا سوشل ڈیموکریٹس کی پارٹی ایس پی ڈی کو کرنا پڑا، جس کو حاصل عوامی تائید میں 2014ء کے گزشتہ ریاستی الیکشن کے نتائج کے مقابلے میں ایک تہائی کمی دیکھی گئی۔ ایس پی ڈی کو کل اتوار ستائیس اکتوبر کو ہونے والے الیکشن میں صرف تقریباﹰ آٹھ فیصد ووٹ ملے۔
برلن میں حکمران جماعتوں کی صفوں میں زلزلہ
برلن میں چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں قائم وفاقی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے لیے یہ نتائج اس لیے بہت بڑا دھچکا ہیں کہ سی ڈی یو اور ایس پی ڈی مل کر بھی کل ڈالے گئے ووٹوں کا ایک تہائی بھی حاصل نہ کر سکیں۔ یہ اس صوبے کے ایسے انتخابی نتائج ہیں، جن کی جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر آج تک کبھی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان انتخابات کے ابتدائی نتائج سامنے آنے کے بعد برلن میں سی ڈی یو کے سیکرٹری جنرل پاؤل سیمیاک نے کہا، ''آج کا دن کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے لیے ایک بڑا ہی تلخ دن ہے۔‘‘ اسی طرح کی ناامیدی کا اظہار سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی قائم مقام خاتون سربراہ مالُو درائر نے بھی کیا۔
ان نتائج کے بعد سی ڈی یو کا لائحہ عمل کیا ہو گا، اس پر میرکل کی پارٹی کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہو گا۔ لیکن ایس پی ڈی کو آئندہ کیا فیصلے کرنا ہوں گے، یہ پارٹی تو ابھی اس بارے میں بھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتی۔ اس لیے کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی اگلی سربراہ کون سی شخصیت ہو گی، یہ فیصلہ تو تیس نومبر کو کیا جائے گا۔
پہلی بار لیفٹ پارٹی متحدہ جرمنی کے کسی مشرقی صوبے کی پارلیمان میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئیتصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
بائیں بازو کی جماعت 'دی لِنکے‘ کی تاریخ ساز فتح
ماضی میں مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ ریاست کا حصہ رہنے والے اور اب متحدہ جرمنی کے مشرقی صوبوں میں سے ایک تھیورنگیا کے ان انتخابات میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت 'دی لِنکے‘ کو تاریخ ساز کامیابی حاصل ہوئی۔ غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق 'دی لِنکے‘ کو 31 فیصد ووٹ ملے اور وہ نئی پارلیمان میں نمائندگی کی حامل سب سے بڑی جماعت ہو گی۔
دائیں بازو کی انتہا پسند اے ایف ڈی بھی میرکل کی پارٹی سے آگے
اتوار ستائیس اکتوبر کے انہی صوبائی انتخابات کے نتائج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جرمنی میں اسلام کی مخالفت اور تارکین وطن کی آمد پر شدید تنقید کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کو بھی اتنے زیادہ ووٹ ملے کہ اس نے چانسلر میرکل کی قدامت پسند پارٹی سی ڈی یو کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
یوں بائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کی دونوں جماعتوں 'دی لِنکے‘ اور اے ایف ڈی کو حاصل ہونے والی تائید کو دیکھا جائے تو ان دونوں پارٹیوں کو مشترکہ طور پر تقریباﹰ 55 فیصد ووٹ ملے۔
اس کے علاوہ اے ایف ڈی کو تو 2014ء کے الیکشن کے مقابلے میں تقریباﹰ 13 فیصد زیادہ تائید حاصل ہوئی۔
نو منتخب پارلیمان میں نشستوں کی آئندہ تقسیم کو دیکھا جائے تو یہ بات بھی یقینی ہے کہ تھیورنگیا میں نئی صوبائی حکومت کی تشکیل کے لیے سب سے زیادہ حق تو 'دی لِنکے‘ ہی کا بنتا ہے لیکن اس کے لیے بھی حکومت سازی ایک بہت مشکل اور صبر آزما عمل ثابت ہو گا۔
ایرفُرٹ میں تھیورنگیا کی نئی صوبائی حکومت ہر حال میں ایک مخلوط حکومت ہو گی۔
زابینے کِنکارٹس (م م / ع ا)
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔