ترکی کی طرف سے شام کے شمالی حصے میں کارروائی کے سبب جرمن عوام کی ایک بڑی تعداد نے ترکی کو جرمن اسلحے کی فراہمی کی مخالفت کی ہے۔ یہ بات ایک سروے سے معلوم ہوئی ہے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس سروے میں شریک 1200 افراد میں سے 91 فیصد نے جرمنی کی طرف سے ترکی کو اسلحے کی ترسیل کی مخالفت کی ہے۔ جرمن براڈکاسٹر زیڈ ڈی ایف کی طرف سے وسط اکتوبر میں کرائے گئے اس سروے میں شریک محض پانچ فیصد افراد نے ترکی کو جرمنی اسلحے کی فراہمی کی حمایت کی۔
ترکی کی طرف سے شام کے شمالی حصے میں کُرد ملیشیا کے خلاف ملٹری کارروائی کی جرمنی سمیت دیگر یورپی اور مغربی ممالک مخالفت کر رہے ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں کارروائی فوری طور پر روک دیں۔ ایردوآن شام کے شمالی حصے میں سرگرم کرد ملیشیا وائی پی جے کو کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کا ہی حصہ اور ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں۔ ترکی کا یہ بھی استدلال ہے کہ وہ اپنی سرحد کے قریب شامی علاقے میں ایک محفوظ علاقہ قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں ترکی میں موجود شامی مہاجرین کو لے جا کر بسایا جا سکے۔
جرمن براڈکاسٹر زیڈ ڈی ایف کے سروے میں شریک 65 فیصد افراد نے شام میں ترک کارروائی کی وجہ سے ترکی کے خلاف معاشی پابندیوں کی حمایت کی جبکہ 27 فیصد نے اس کی مخالفت کی۔
ترکی کے خلاف اگر یورپی یونین معاشی پابندیاں عائد کرتا ہے تو اس بات کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مہاجرین کے حوالے سے موجود معاہدے کو نقصان پہنچے گا۔ سروے کے 80 فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ ترکی ایسی صورت میں معاہدے کے برخلاف مہاجرین کو ترکی میں روکنے کا سلسلہ ترک کر دے گا اور نتیجتاﹰ یورپ میں مہاجرین کی آمد بڑھ جائے گی۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔