جرمن فوج میں ’یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی بھی‘
21 جولائی 2018
وفاقی جرمن فوج کو کئی برسوں سے نئی بھرتیوں کے لیے افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔ اس لیے یہ پرانی تجویز دوبارہ زیر غور ہے کہ فیڈرل آرمی میں یورپی یونین کی رکن دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بھی بھرتی کیا جائے۔
اشتہار
جرمنی میں کئی سال پہلے تک ہر شہری کے لیے محدود عرصے تک لازمی فوجی سروس کا ایک قانون موجود تھا۔ لیکن جب سے یہ قانون اور اس پر عمل درآمد ختم ہوئے ہیں، تب سے فیڈرل آرمی کو نئے فوجیوں کی بھرتی کے عمل میں افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔
اسی لیے اب ملکی سطح پر یہ پرانی تجویز دوبارہ زیر غور ہے کہ یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک کے شہریوں کو بھی یہ اجازت دی جائے کہ وہ وفاقی جرمن فوج میں بھرتی ہو کر عسکری شعبے میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
اس حوالے سے برلن میں وفاقی وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے ہفتہ اکیس جولائی کو ملکی خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی فیڈرل آرمی کے لیے نئی تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ہر قسم کی ممکنہ تجاویز کا بڑے غور سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
وفاقی جرمن فوج کے ترجمان کے مطابق اس بارے میں ایک تجویز یورپی یونین کے شہریوں کے طور پر غیر ملکیوں کو جرمن فوج میں بھرتی کی اجازت دینا بھی ہے، جو دراصل 2016ء میں ہی ایک تجویز کے طور پر فیڈرل آرمی کی ملکی سکیورٹی سے متعلق حکمت عملی کی ’وائٹ بک‘ میں درج کر لی گئی تھی اور جسے اب افرادی قوت سے متعلق جرمن فوج کی نئی حکمت عملی میں دوبارہ شامل کر لیا گیا ہے۔
لیکن اس تجویز کے دوبارہ زیر غور آتے ہی سیاسی طور پر ایک نئی بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ جرمنی میں اب تک جو ملکی قوانین رائج ہیں، ان کے تحت ملکی فوجیوں اور ریاست کے مابین ایک خاص طرح کا ’خلوص کا رشتہ‘ پایا جاتا ہے۔ اس رشتے کے لیے ایک لازمی پیشگی شرط یہ بھی ہے کہ کسی بھی جرمن فوجی کو جرمنی کا شہری ہونا چاہیے۔
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی فتح کی یاد میں جشن
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کی یاد منانے کے موقع پر روسی فوج نے اپنی طاقت اور نئی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر پوٹن نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ریڈ اسکوائر میں جشن
روس ہر سال نو مئی کو سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کا جشن مناتا ہے۔ 1945ء کی اسی تاریخ کی نصف شب کو نازی جرمنی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ دیگر اتحادی ممالک مثلاﹰ فرانس اور برطانیہ فتح کا دن آٹھ فروری کو مناتے ہیں۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہونے والی اس پریڈ کی سربراہی روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے کی۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
ریڈ آرمی کے قیام کے 100 برس
2018ء کی یوم فتح کی پریڈ سابق سوویت یونین کی ’ریڈ آرمی‘ کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کی یادگار میں بھی تھی۔ اس موقع پر 13 ہزار کے قریب فوجیوں نے انتہائی منظم انداز میں پریڈ کی۔ اس موقع پر سابق فوجیوں کی کافی تعداد بھی موجود تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی یہ پریڈ دیکھی جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو میں تھے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ایک ’قابل تعظیم‘ چھٹی کا دن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریڈ کے شرکاء سے بات چیت کی، مثلاﹰ تصویر میں نظر آنے والے یوتھ ملٹری گروپ کے ارکان۔ روسی صدر کے مطابق، ’’یہ ایک چھٹی کا دن ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور رہے گا اور یہ ہر خاندان کے لیے قابل تعظیم رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر دنیا کو ان غطیوں سے خبردار کیا جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنیں: ’’انا پرستی، عدم برداشت، جارحانہ قوم پرستی اور منفرد ہونے کے دعوے۔‘‘
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
’روسی کارہائے نمایاں مٹائے نہیں جا سکتے‘
روسی اکثر یہ کہتا ہے کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو شکست دینے میں روس کے کردار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق، ’’یورپ کو غلامی اور مکمل خاتمے کے خطرے اور ہولوکاسٹ کی دہشت سے بچانے میں ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا آج لوگ ان کارناموں کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ روسی صدر نے خود کو روایتی یورپ کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
ہوشیار باش اسنائپرز
ریڈ اسکوائر پر صرف فوجی قوت کا ہی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ اس تمام کارروائی کے دوران ارد گرد کی عمارات پر ماہر نشانہ باز بھی بالکل ہوشیار باش تھے۔ ریڈ اسکوائر ماسکو کے وسط میں واقع ہے اور یہ روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کا علاقہ ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
نئے ہتھیاروں کی نمائش
اس پریڈ کے دوران 159 کی تعداد میں فوجی ساز و سامان کی بھی نمائش کی گئی۔ ان میں میزائل سے مسلح ایک MiG-31 سپر سانک جیٹ بھی شامل تھا۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق زیادہ تر جدید ہتھیاروں کو شامی جنگ میں جانچا جا چکا ہے۔ نمائش کے لیے پیش کیے گئے اسلحے میں ڈرون، باردوی سرنگیں صاف کرنے والا روبوٹ اور انسان کے بغیر کام کرنے والا ٹینک بھی شامل تھا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
6 تصاویر1 | 6
اس بارے میں برلن میں چانسلر میرکل کی قیادت میں موجودہ وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل دوسری بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی یا اسی پی ڈی کے سلامتی اور دفاع سے متعلقہ امور کے ماہر کارل ہائنس برُونر نے اخبار ’آؤگسبرگر الگمائنے‘ کو بتایا، ’’ایس پی ڈی بنیادی طور پر یہ بات سوچ تو سکتی ہے کہ جرمن فوج میں یورپی یونین کے شہریوں کو بھی غیر ملکی ہونے کے باوجود بھرتی کیا جائے، تاہم اگر ان غیر ملکیوں نے اپنے لیے جرمن شہریت حاصل کرنے کا فیصلہ نہ کیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ وفاقی جرمن مسلح افواج کو ’کرائے کے سپاہیوں کی ایک فوج‘ کے طور پر دیکھا جائے، جو کسی بھی طور درست نہیں ہو گا۔‘‘
اسی طرح میرکل حکومت میں شامل صوبے باویریا کی جماعت سی ایس یو کے دفاعی امور کے ترجمان اور وفاقی جرمن پارلیمان کے رکن فلوریان ہان کا کہنا ہے، ’’یورپی یونین کے رکن ممالک میں افراد اور اشیاء کی آزادانہ نقل و حرکت کے قانون کے تحت مستقبل میں ایسے مسائل کے حل کے لیے نئے جدت پسندانہ راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہو گی۔ تاہم یہ بھی لازمی ہو گا کہ غیر جرمن یورپی شہریوں کی وفاقی جرمن فوج میں بھرتی کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسے سپاہیوں کے جرمن ریاست کے ساتھ خصوصی رشتے کو بھی یقینی بنایا جائے۔‘‘
اس کے برعکس جرمنی میں غیر ملکیوں اور تارکین وطن کی آمد کی مخالفت کرنے والی دائیں باز وکی جماعت اے ایف ڈی یا ’متبادل برائے جرمنی‘ کے پارلیمانی حزب کی قیادت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ فیڈرل آرمی کو درپیش افرادی قوت کے مسئلے کا یہی حل بہتر ہو گا کہ ملک میں ہر بالغ شہری کے لیے محدود مدت تک لازمی فوجی سروس کا قانون دوبارہ متعارف کرا دیا جائے۔
م م / ع ب / ڈی پی اے
جرمن فوج کے ساٹھ سال
1955ء میں جرمن فوج کو ملکی دفاع کے مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اپنے قیام کے تقریباً چالیس سال بعد جرمن فوجی پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی فوجی مشن میں شامل ہوئے تھے اور اب یہ معمول بن چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بائیس سال قبل ایک نئی ابتداء
دو اپریل 1993ء کو جرمن حکومت نے سابق یوگوسلاویہ میں شروع کیے جانے والے نیٹو مشن میں جرمن فوجیوں کو شامل کرنے کی اجازت دی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلی مرتبہ تھا کہ جرمن فوجی کسی بین الاقوامی فوجی مشن کا حصہ بنے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Stephanie Pilick
پارلیمان کی برتری
دو جولائی 1994ء کو جرمنی کی آئینی عدالت نے فیصلہ دیا کہ اقوام متحدہ اور نیٹو کے رکن ہونے کی وجہ سے جرمن فوجی ان نتظیموں کے عسکری مشننز میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ اس سلسلے میں پارلیمان کو برتری حاصل ہے اور جنگی کارروائیوں میں شامل ہونے کی اجازت ہر مرتبہ پارلیمان سے لینا لازمی ہے۔
تصویر: Getty Images
کوسوو کی جنگ
1999ء میں نیٹو کے پرچم تلے جرمن فوج نے کوسوو میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر کسی غیر ملکی عسکری کارروائی میں حصہ لیا تھا۔ یہ مشن شہری حقوق کے حوالے سے متنازعہ تھا کیونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے اس کی باقاعدہ اجازت نہیں دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمنی میں شدید احتجاج
کوسوو میں جرمن فوجی اہلکاروں کی کارروائیوں پر ملکی سطح پر شدید احتجاج کیا گیا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ برلن حکومت نے اپنی افواج کو ملک سے باہر جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے کی باقاعدہ اجازت دی تھی۔ اس کے بعد سیاسی سطح پر حالات شدید کشیدہ ہو گئے اور خاص طور پر ماحول دوست گرین پارٹی پر دباؤ بڑھ گیا۔ 1999ء میں پارٹی کے خصوصی اجلاس کے موقع پر گرین پارٹی کے وزیر خارجہ یوشکا فشر پر رنگ بھی پھینکا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دہشت گردی کے خلاف جنگ
گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد برلن حکومت نے بھی انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ آپریشن ’’ اینڈورنگ فریڈم ‘‘ کے تحت جرمن دستے افغان جنگ میں شریک ہوئے۔ ساتھ ہی قرن افریقہ کے پانیوں میں بھی جرمن جنگی بحری جہاز تعینات کیے گئے۔
تصویر: AP
چانسلر شرؤڈر پر دباؤ
انسداد دہشت گردی کی جنگ میں شمولیت کے فیصلے پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی کے مابین شدید بحث ہوئی۔ اس وقت یہ دونوں جماعتیں ہی جرمنی پر حکومت کر رہی تھیں۔ اس موقع پر سوشل ڈیموکریٹ چانسلر گیرہارڈ شرؤڈر نے امریکا کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس مشن میں جرمن افواج کی شمولیت کو پارلیمان میں اعتماد کے ووٹ سے مشروط کر دیا۔ اور وہ اس میں معمولی سے اکثریت سے کامیاب بھی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
افغانستان میں تیرہ برس
2002ء سے جرمن افواج افغانستان میں موجود ہیں۔ تیرہ سالہ اس مشن کے دوران جرمنی کے 54 فوجی ہلاک ہوئے۔ 31 دسمبر 2014ء کو آئی سیف کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا اور اس کے بعد اب صرف ساڑھے آٹھ سو جرمن فوجی مقامی دستوں کو تربیت مہیا کرنے کے لیے افغانستان میں موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قندوز حملہ
چار ستمبر 2009ء میں ان دو آئل ٹینکرز کو نشانہ بنایا گیا، جنہیں طالبان نے اغوا کیا تھا۔ اس کارروائی میں بچوں سمیت سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں تقریباً تمام ہی عام شہری تھے۔ ان ٹینکرز پر حملے کے احکامات ایک جرمن فوجی افسر کرنل گیئورگ کلائن نے دیے تھے۔ یہ جرمن فوج کے کسی بھی حملے میں ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔
تصویر: AP
ترکی میں میزائل شکن نظام
دسمبر 2012ء سے جرمن پیٹریاٹ ( میزائل شکن نظام) جنوب مشرقی ترکی میں نصب ہے۔ شام کی جانب سے کسی ممکنہ میزائل حملے کو ناکام بنانے کے لیے نیٹو کے ایماء پر یہ نظام وہاں نصب کیا گیا۔ اس سلسلے میں 256 جرمن فوجی وہاں تعینات ہیں اور اس مشن کی مدت جنوری 2016ء میں ختم ہو جائے گی
تصویر: picture-alliance/dpa
قزاقوں کے خلاف
امدادی اشیاء سے لدے اور دیگر تجارتی بحری جہازوں کو قزاقوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قرن افریقہ اور خلیج عدن میں یورپی یونین کا اٹلانٹا نامی ایک آپریشن جاری ہے۔ دسمبر2008ء میں شروع کیے جانے والے اس آپریشن میں 318 جرمن فوجی شامل ہیں۔
تصویر: Bundeswehr/FK Wolff
بحیرہ روم میں گشت
بحیرہ روم کے ذریعے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کو ڈوبنے سے بچانے کی کوششوں میں بھی جرمن فوجی پیش پیش ہیں۔ اس سلسلے میں 320 جرمن فوجی ضروری اشیاء سے لدے جہازوں اور تیز رفتار کشتیوں کے ساتھ بحیرہ روم میں اپریل 2015ء سے موجود ہیں۔ مستقبل میں اس آپریشن میں توسیع بھی کی جائے گی۔
تصویر: Bundeswehr/PAO Mittelmeer/dpa
مرنے والوں کی یاد میں
جرمن فوج کی اس ساٹھ سالہ تاریخ میں کل 106 فوجی بین الاقوامی مشنز کے دوران اپنی جان کی قربانی دے چُکے کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں برلن میں ہلاک ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے قائم کی جانے والی یادگار کا افتتاح کیا گیا تھا۔