ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق جرمن فوج میں دائیں بازو اور مسلم انتہا پسندوں کی شناخت کی گئی ہے۔ فنکے میڈیا گروپ نے یہ رپورٹ جرمن وزارت دفاع کے حوالے سے جاری کی ہے۔
اشتہار
جرمنی کے فنکے میڈیا گروپ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمن فوج میں دائیں بازو کا رجحان رکھنے والے نواسی انتہاپسندوں کی شناخت ہوئی ہے۔ ان انتہا پسندوں کی تلاش کے اس عمل کے دوران ہی خفیہ سروسز کے اہلکاروں کو چوبیس مسلم انتہا پسندوں کے بارے میں بھی علم ہوا۔ جرمن فوج میں انتہا پسندی کا یہ رجحان سن 2011 کے بعد سے پھیلنا شروع ہوا تھا۔
جرمن فوج کو مسلسل اس دباؤ کا سامنا ہے کہ نازیوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کی تلاش اور شناخت کی جائے اور ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ جرمن فوج میں انتہا پسند عناصر کی مبینہ موجودگی کے ایسے اندازے اُس وقت شدت اختیار کر گئے تھے، جب فوج کے ایک لیفٹیننٹ رینک کے افسر کے بارے میں علم ہوا کہ وہ شامی مہاجر کا لبادہ اوڑھ کر ملک میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف تھا۔
فنکے میڈیا گروپ کو جرمن فوج کی کاؤنٹر انٹیلیجنس سروسز (MAD) کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس وقت فوج میں ایسے رجحان میں کمی پائی گئی ہے۔ اس خفیہ ادارے نے مزید بتایا کہ جو دائیں بازو اور مسلم انتہا پسندوں کی تعداد سامنے آئی ہے، وہ ماضی کے مقابلے میں خاصی کم ہو چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سن 2011 کے بعد سے فوج میں بھرتیوں کے عمل کی سخت نگرانی بھی ہے۔
جرمن وزارت دفاع کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی فوج میں دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے مشتبہ افراد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کمی کی وجہ یہ بھی ہے کہ اب جرمن فوج میں لازمی دو سال کے لیے خدمات بجا لانے کا قانون نرم کیا جا چکا ہے۔ دو سال کے لیے لازمی فوج کی ملازمت کرنے کے دور کے نوے مشتبہ ملازمین کا تعلق دائیں بازو کے انتہا پسندوں سے تھا۔
جرمن فوج کے پیرا ملٹری کمشنز ہانس پیٹر بارٹلز نے فنکے میڈیا گروپ سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ جرمن فوج میں نازیوں سے ہمدردی رکھنے والوں کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ پیرا ملٹری کمشنر نے مزید واضح کیا کہ فوج میں نوکری حاصل کرنے کی ابتدائی سطح پر ایسے افراد کو خارج کر دیا جائے تو یہ بہتر ہوتا ہے۔
فوج میں انتہا پسندی کے رجحان کے بعد کاؤنٹر ملٹری انٹیلیجنس نے اپنی سرگرمیوں کو تیز کر دیا ہے اور اُن افراد کی خاص طور پر چھان پھٹک کی جاتی ہے جو فوج میں بھرتی ہونے کے لیے اپنا فارم جمع کرواتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی فتح کی یاد میں جشن
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کی یاد منانے کے موقع پر روسی فوج نے اپنی طاقت اور نئی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر پوٹن نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ریڈ اسکوائر میں جشن
روس ہر سال نو مئی کو سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کا جشن مناتا ہے۔ 1945ء کی اسی تاریخ کی نصف شب کو نازی جرمنی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ دیگر اتحادی ممالک مثلاﹰ فرانس اور برطانیہ فتح کا دن آٹھ فروری کو مناتے ہیں۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہونے والی اس پریڈ کی سربراہی روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے کی۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
ریڈ آرمی کے قیام کے 100 برس
2018ء کی یوم فتح کی پریڈ سابق سوویت یونین کی ’ریڈ آرمی‘ کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کی یادگار میں بھی تھی۔ اس موقع پر 13 ہزار کے قریب فوجیوں نے انتہائی منظم انداز میں پریڈ کی۔ اس موقع پر سابق فوجیوں کی کافی تعداد بھی موجود تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی یہ پریڈ دیکھی جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو میں تھے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ایک ’قابل تعظیم‘ چھٹی کا دن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریڈ کے شرکاء سے بات چیت کی، مثلاﹰ تصویر میں نظر آنے والے یوتھ ملٹری گروپ کے ارکان۔ روسی صدر کے مطابق، ’’یہ ایک چھٹی کا دن ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور رہے گا اور یہ ہر خاندان کے لیے قابل تعظیم رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر دنیا کو ان غطیوں سے خبردار کیا جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنیں: ’’انا پرستی، عدم برداشت، جارحانہ قوم پرستی اور منفرد ہونے کے دعوے۔‘‘
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
’روسی کارہائے نمایاں مٹائے نہیں جا سکتے‘
روسی اکثر یہ کہتا ہے کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو شکست دینے میں روس کے کردار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق، ’’یورپ کو غلامی اور مکمل خاتمے کے خطرے اور ہولوکاسٹ کی دہشت سے بچانے میں ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا آج لوگ ان کارناموں کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ روسی صدر نے خود کو روایتی یورپ کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
ہوشیار باش اسنائپرز
ریڈ اسکوائر پر صرف فوجی قوت کا ہی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ اس تمام کارروائی کے دوران ارد گرد کی عمارات پر ماہر نشانہ باز بھی بالکل ہوشیار باش تھے۔ ریڈ اسکوائر ماسکو کے وسط میں واقع ہے اور یہ روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کا علاقہ ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
نئے ہتھیاروں کی نمائش
اس پریڈ کے دوران 159 کی تعداد میں فوجی ساز و سامان کی بھی نمائش کی گئی۔ ان میں میزائل سے مسلح ایک MiG-31 سپر سانک جیٹ بھی شامل تھا۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق زیادہ تر جدید ہتھیاروں کو شامی جنگ میں جانچا جا چکا ہے۔ نمائش کے لیے پیش کیے گئے اسلحے میں ڈرون، باردوی سرنگیں صاف کرنے والا روبوٹ اور انسان کے بغیر کام کرنے والا ٹینک بھی شامل تھا۔