جرمن فوج میں شدت پسند افشا کردہ تعداد سے کہیں زیادہ
10 مارچ 2019
جرمن فوج میں موجود دائیں بازو کے شدت پسند اہلکاروں کے بارے میں تفتیش کرنے والے ادارے نے اس مسئلے کی شدت کو کم کر کے بیان کیا۔ یہ بات ایک تازہ رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔
اشتہار
جرمن فوج میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کی تعداد اندازوں سے زیادہ ہے۔ جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران دائیں بازو کے مشتبہ انتہا پسند ہونے کے شبے میں بے نقاب اور نکالے جانے والے فوجی اہلکاروں کی اصل تعداد اُس سے کہیں زیادہ تھی جو منظر عام پر لائی گئی۔
فوج میں نگرانی کا خفیہ ادارہ’ایم اے ڈی‘ پہلے ہی اس حوالے سے غلط اعداد و شمار پیش کرنے میں اپنی غلطی تسلیم کر چکا ہے۔ 'ایم اے ڈی‘ نے بتایا تھا کہ 2018ء میں دائیں بازو کے چار شدت پسند اور تین مسلم انتہا پسند فوجیوں کو فوج سے نکالا گیا تھا۔
ڈیر اشپیگل کی رپورٹ کے مطابق رواں برس فروری کے وسط میں جرمن پارلیمان کی داخلہ معاملات سے متعلق کمیٹی کے ایک بند کمرہ اجلاس میں ’ایم اے ڈی‘ کے سربراہ نے کمیٹی کو بتایا کہ اس معاملے میں صرف وہ تعداد سامنے لائی گئی تھی جن اہلکاروں کی ’واضح طور پر دائیں بازو کے شدت پسند‘ کے طور پر شناخت ہوئی تھی۔
فوج میں نگرانی کے اس خفیہ ادارے کے ایک رُکن نے جرمن میگزین ڈیئر اشپیگل کو بتایا کہ سامنے لائے گئے اعداد و شمار جرمن مسلح افواج سے نکالے گئے اہلکاروں کی اصل تعداد سے کہیں کم تھے۔ اس رکن کے مطابق ایسے اہلکاروں کو بھی فوج سے نکالا گیا جن پر دائیں بازو کے شدت پسند ہونے کا شبہ تھا۔
ایم اے ڈی کے ایک اہلکار کے مطابق سال 2013ء سے اب تک ہر سال قریب 10 مزید اہلکاروں کے بارے میں اعلیٰ حکام کو خبردار کیا گیا جو ’مشتبہ طور پر شدت پسندانہ رویہ‘ رکھتے تھے۔
ڈیئر اشپیگل کے مطابق ’ایم اے ڈی‘ کا کہنا ہے کہ اس وقت جرمن فوج میں دائیں بازو کے مشتبہ شدت پسندوں کے قریب 450 کیسز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ان میں سے 64 اہلکار مشتبہ طور پر ’آئیڈنٹیٹیریئن موومنٹ‘ جبکہ دیگر 64 اہلکار ممکنہ طور پر ’رائش بُرگر‘ نامی دائیں بازو کے شدت پسند گروپوں کے رُکن ہیں۔
رائش بُرگر تحریک خاص طور پر جرمن حکومت کے علاوہ جرمن قوانین کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی۔
وفاقی جرمن فوج، زلفوں کی لمبائی کا جھگڑا عدالت میں
وفاقی جرمن فوج کا ایک اہلکار شانوں تک لمبے بال رکھنا چاہتا ہے۔ عدالت نے فوجی کی اپیل مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی وفاقی جرمن فوج کو زلفوں سے متعلق قوانین میں تبدیلی لانے کا حکم بھی دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Brandt
فوجی لیکن گوتھ کلچر کا حصہ
مدعی گوتھ کلچر کو پسند کرتا ہے۔ وہ فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ تصویر میں نظر آنے والے اس شخص کی طرح گوتھ اسٹائل کا دلدادہ ہے۔ نجی زندگی کے دوران تو لمبے بال مسئلہ نہیں ہیں لیکن دوران ڈیوٹی فوجی ضوابط کے تحت لمبے بال رکھنے کی ممانعت ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Prosch
سخت رویہ، نازک جلد
جرمن فوج کے قوانین کے مطابق سروس کے دوران ایک فوجی کے بال اس طرح ہونے چاہئیں کہ سیدھا کھڑا ہونے کی صورت میں بال نہ تو یونیفارم اور نہ ہی شرٹ کے کالر کو چھوئیں۔ یہ قانون صرف مرد فوجیوں کے لیے ہے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
خواتین کی چُٹیا
بنیادی تربیت سے پہلے مردوں کے برعکس خواتین فوجیوں کے بال نہیں کاٹے جاتے۔ اگر خواتین کے بال کندھوں سے بھی طویل ہیں تو انہیں چٹیا بنانی ہوتی ہے۔ عدالت کے مطابق یہ مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Reinhardt
خواتین فوجیوں کی تلاش
عدالت نے وزارت دفاع کے موقف کی تائید کی ہے۔ وزارت دفاع کے مطابق خواتین لمبے بالوں کو حساس نسائیت کی وجہ سے پسند کرتی ہیں۔ جرمن فوج کو خواتین کے لیے پرکشش بنانے کی وجہ سے یہ اجازت دی گئی ہے۔
تصویر: Bundeswehr / Jonas Weber
لمبی داڑھی اور لمبی زلفوں کی اجازت؟
وفاقی انتظامی عدالت نے فوجی اہلکار کی اپیل تو مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا ہے کہ فوج اپنے ملازمین کی نجی زندگی میں بہت زیادہ دخل اندازی کر رہی ہے، لہذا اسے اپنے قوانین میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہو سکتا ہے جلد ہی جرمن فوجیوں کو لمبے بال اور لمبی داڑھی رکھنے کی اجازت مل جائے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
لڑائی سے پہلے بال تراشیں
تقریبا پچاس برس قبل وفاقی جرمن فوج کے اہلکاروں کو گردن کے پیچھے فیشن ایبل بال رکھنے کی اجازت تھی۔ سن 1971 میں ماتھے پر بھی لمبے بال رکھے جا سکتے تھے لیکن اس کے ایک برس بعد ہی یہ اجازت ختم کر دی گئی تھی۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
بیوروکریسی کے پھندے میں
ستر کی دہائی کے آغاز میں جرمن فوجیوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت تھی اور اسی وجہ سے بیرون ملک جرمن فوج کو ’جرمن ہیئر فورس‘ کہا جانے لگا تھا۔ لمبے بالوں کی وجہ سے جو صحیح طریقے سے ڈیوٹی سرانجام نہیں دے پاتا تھا، اسے بالوں کو قابو میں رکھنے والی ایک ٹوپی دی جاتی تھی۔ وفاقی جرمن فوج نے سات لاکھ چالیس ہزار جالی والی ٹوپیاں منگوائی تھیں۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
اپنے وطن کے لیے
اس فوجی کو خصوصی اجازت فراہم کی گئی تھی۔ سارجنٹ ہنس پیٹر کی یہ تصویر سن 2005 میں لی گئی تھی۔ جرمن فوج کا یہ اہلکار کلاسیک مونچھوں کے مقابلے میں پہلی پوزیشن بھی جیت چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Weihs
چہرہ چھپائیے
جب خود کو دشمن کی نگاہوں سے چھپانے کی بات کی جائے تو پھر سب کچھ جائز ہے۔ یہ دونوں فوجی نشانچی ہیں اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالے ہوئے ہیں۔