جرمن فوج میں مسلمان فوجیوں کے لیے آئمہ کی تقرری کا مطالبہ
مقبول ملک دیار عاقل / ع ح
6 فروری 2019
جرمنی میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وفاقی فوج میں شامل مسلمان افسروں اور سپاہیوں کے لیے آئمہ بھی بھرتی کیے جانا چاہییں۔ ’فیڈرل ڈیفنس‘ کہلانے والی وفاقی جرمن فوج میں مسلمان فوجیوں کی مجموعی تعداد قریب ڈیڑھ ہزار بنتی ہے۔
اشتہار
اکثریتی طور پر مسیحی عقیدے کی حامل آبادی والے ملک جرمنی کی وفاقی فوج میں سپاہیوں کی زیادہ تر تعداد کا تعلق بھی مسیحیت سے ہے۔ لیکن جس طرح جرمنی میں مسیحیت کے بعد اسلام سب سے بڑا مذہب ہے، اسی طرح وفاقی فوج میں بھی مسلمانوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ جرمن فوج کے مسیحی ارکان کی مذہبی اور روحانی رہنمائی کے لیے فیڈرل آرمی میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں سے تعلق رکھنے والی کلیسائی شخصیات کی بھرتی تو کوئی نئی بات نہیں لیکن بہت سے مسلمانوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ وفاقی جرمن مسلح افواج کے مسلمان ارکان کے لیے کوئی امام موجود نہیں ہیں۔
اس بارے میں برلن میں ملکی حکومت کا کہنا یہ ہے کہ وفاقی فوج میں آئمہ کی تقرری کے ساتھ مذہبی کیڈر میں توسیع سے قبل اس سلسلے میں بہت سے کلیدی سوالوں کے جوابات حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
مراکشی نژاد مسلم خاتون بحری افسر
ناریمان رائنکے جرمن بحریہ کی ایک ایسی پیٹی آفیسر ہیں، جو مراکش سے ترک وطن کر کے آنے والے ایک مسلم گھرانے میں 1979ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے 2005ء میں جرمن مسلح افواج میں اپنا پیشہ ورانہ کیریئر شروع کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ افغانستان میں بھی فرائض انجام دے چکی ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمن فوج میں ایک مسلم خاتون افسر کے طور پر فرائض انجام دینا ہمیشہ ہی بہت آسان نہیں ہوتا۔ رائنکے Deutscher.Soldat یا ’جرمن فوجی‘ نامی ایک ایسے گروپ کی نائب سربراہ بھی ہیں، جو مختلف رنگ و نسل اور عقائد کے حامل افراد کے وفاقی جرمن فوج میں بہتر انضمام کے لیے کوشاں ہے۔ یہ گروپ اس سلسلے میں بھی سرگرم ہے کہ جرمنی میں مختلف مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو وفاقی فوج میں بہتر انضمام کا موقع ملنا چاہیے۔
رائنکے نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مسیحی فوجیوں اور افسران کے لیے تو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ پادریوں کی خدمات دستیاب ہیں لیکن اگر مسلمان فوجیوں کو اپنے لیے مذہبی رہنمائی یا کسی وضاحت کی ضرورت ہو، تو ان کے لیے آئمہ موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں انہوں نے وفاقی جرمن وزیر دفاع اُرزُولا فان ڈئر لاین کے ساتھ بات چیت میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا تاہم اب تک کوئی عملی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
جرمن مسلم فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار
جرمنی سے باہر بہت سے حلقے یہ نہیں جانتے کہ جرمن مسلح افواج میں مجموعی طور پر مسلمان افسروں اور عام فوجیوں کی تعداد قریب ڈیڑھ ہزار بنتی ہے۔ ان فوجیوں کو اپنی روزمرہ کی پیشہ ورانہ زندگی میں کئی معاملات میں مذہبی رہنمائی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔
وفاقی جرمن وزارت دفاع کے مطابق فیڈرل آرمڈ فورسز میں مسلم آئمہ کی تقرری سے متعلق جرمن اسلام کانفرنس کے ساتھ مذاکرات اور مشاورت جاری ہیں۔ دوسری طرف جرمنی میں ’اسلام کانفرنس‘ نامی نیم سرکاری مذہبی پلیٹ فارم میں شامل مسلم تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کوئی عملی فیصلے کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔
فوجی تھیلے میں کفن بھی
ناریمان رائنکے نے کہا کہ انہوں نے جہاں جہاں بھی مسلح مشنوں کے دوران اپنے فرائض انجام دیے، ایک بات ہمیشہ ان کے ذہن میں تھی کہ وہ کسی بھی آپریشن میں ماری بھی جا سکتی تھیں۔ ’’اس کے لیے میں نے اپنے طور پر یہ انتظام کر رکھا تھا، کہ اگر فرائض کی انجام دہی کے دوران میری جان چلی جائے، تو میری میت کو یونیفارم میں ہی کسی تابوت میں بند کر کے گھر بھیجنے کے بجائے مسلم عقیدے کے مطابق کفن میں دفن کیا جانا چاہیے۔‘‘
رائنکے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس کے لیے میں اپنے فوجی بیگ میں اپنا کفن بھی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھی۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’افغانستان میں تعیناتی کے دوران میں نے یہ انتظام بھی کر لیا تھا کہ اگر میں کسی آپریشن میں ماری گئی، تو میری میت کو غسل دیے جانے کے بعد میری تکفین کی جانا چاہیے۔ اسی لیے میرا کفن ہر وقت میرے بیگ میں ہوتا تھا۔‘‘
وفاقی جرمن فوج، زلفوں کی لمبائی کا جھگڑا عدالت میں
وفاقی جرمن فوج کا ایک اہلکار شانوں تک لمبے بال رکھنا چاہتا ہے۔ عدالت نے فوجی کی اپیل مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی وفاقی جرمن فوج کو زلفوں سے متعلق قوانین میں تبدیلی لانے کا حکم بھی دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Brandt
فوجی لیکن گوتھ کلچر کا حصہ
مدعی گوتھ کلچر کو پسند کرتا ہے۔ وہ فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ تصویر میں نظر آنے والے اس شخص کی طرح گوتھ اسٹائل کا دلدادہ ہے۔ نجی زندگی کے دوران تو لمبے بال مسئلہ نہیں ہیں لیکن دوران ڈیوٹی فوجی ضوابط کے تحت لمبے بال رکھنے کی ممانعت ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Prosch
سخت رویہ، نازک جلد
جرمن فوج کے قوانین کے مطابق سروس کے دوران ایک فوجی کے بال اس طرح ہونے چاہئیں کہ سیدھا کھڑا ہونے کی صورت میں بال نہ تو یونیفارم اور نہ ہی شرٹ کے کالر کو چھوئیں۔ یہ قانون صرف مرد فوجیوں کے لیے ہے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
خواتین کی چُٹیا
بنیادی تربیت سے پہلے مردوں کے برعکس خواتین فوجیوں کے بال نہیں کاٹے جاتے۔ اگر خواتین کے بال کندھوں سے بھی طویل ہیں تو انہیں چٹیا بنانی ہوتی ہے۔ عدالت کے مطابق یہ مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Reinhardt
خواتین فوجیوں کی تلاش
عدالت نے وزارت دفاع کے موقف کی تائید کی ہے۔ وزارت دفاع کے مطابق خواتین لمبے بالوں کو حساس نسائیت کی وجہ سے پسند کرتی ہیں۔ جرمن فوج کو خواتین کے لیے پرکشش بنانے کی وجہ سے یہ اجازت دی گئی ہے۔
تصویر: Bundeswehr / Jonas Weber
لمبی داڑھی اور لمبی زلفوں کی اجازت؟
وفاقی انتظامی عدالت نے فوجی اہلکار کی اپیل تو مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا ہے کہ فوج اپنے ملازمین کی نجی زندگی میں بہت زیادہ دخل اندازی کر رہی ہے، لہذا اسے اپنے قوانین میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہو سکتا ہے جلد ہی جرمن فوجیوں کو لمبے بال اور لمبی داڑھی رکھنے کی اجازت مل جائے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
لڑائی سے پہلے بال تراشیں
تقریبا پچاس برس قبل وفاقی جرمن فوج کے اہلکاروں کو گردن کے پیچھے فیشن ایبل بال رکھنے کی اجازت تھی۔ سن 1971 میں ماتھے پر بھی لمبے بال رکھے جا سکتے تھے لیکن اس کے ایک برس بعد ہی یہ اجازت ختم کر دی گئی تھی۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
بیوروکریسی کے پھندے میں
ستر کی دہائی کے آغاز میں جرمن فوجیوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت تھی اور اسی وجہ سے بیرون ملک جرمن فوج کو ’جرمن ہیئر فورس‘ کہا جانے لگا تھا۔ لمبے بالوں کی وجہ سے جو صحیح طریقے سے ڈیوٹی سرانجام نہیں دے پاتا تھا، اسے بالوں کو قابو میں رکھنے والی ایک ٹوپی دی جاتی تھی۔ وفاقی جرمن فوج نے سات لاکھ چالیس ہزار جالی والی ٹوپیاں منگوائی تھیں۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
اپنے وطن کے لیے
اس فوجی کو خصوصی اجازت فراہم کی گئی تھی۔ سارجنٹ ہنس پیٹر کی یہ تصویر سن 2005 میں لی گئی تھی۔ جرمن فوج کا یہ اہلکار کلاسیک مونچھوں کے مقابلے میں پہلی پوزیشن بھی جیت چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Weihs
چہرہ چھپائیے
جب خود کو دشمن کی نگاہوں سے چھپانے کی بات کی جائے تو پھر سب کچھ جائز ہے۔ یہ دونوں فوجی نشانچی ہیں اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالے ہوئے ہیں۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
9 تصاویر1 | 9
کثیر الثقافتی فیڈرل آرمی
برلن میں وفاقی جرمن حکومت کی طرف سے ہمیشہ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ ملکی مسلح افواج کو زیادہ سے حد تک کثیر المذہبی، کثیر الثقافتی اور کثیرالنسلی بنانا چاہتی ہے۔ لیکن مختلف وجوہات کے باعث اب تک اگر فیڈرل فورسز میں مسلم امام بھرتی نہیں کیے جا سکے، تو اس وجہ سے خاص طور پر سیاسی اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے دفاعی پالیسی سے متعلق امور کے ترجمان اور وفاقی جرمن پارلیمان کے رکن ٹوبیاس لِنڈنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ چکا ہے کہ وفاقی جرمنی کی مسلح افواج میں مختلف مذاہب اور عقائد کے حامل اہلکاروں کی موجودگی کو تسلیم بھی کیا جائے اور اسے سراہا بھی جائے۔‘‘
پہلی عالمی جنگ کا خاموش میدانِ جنگ
بیلجیم کی عوام نے دو لاکھ یورو جمع کر کے زمین میں مدفون قلعہ نما خندقیں تلاش کی ہیں۔ یہ قلعہ بند خندقیں پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمن فوجیوں نے بنائی تھی۔ ان میں سے ایک سو ہلاک شدہ جرمن فوجیوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
چلو! چلو پہاڑ کو کھودیں
بیلجیم کے ماہر آثارِ قدیمہ سائمن وردیغم کو اس کا یقین تھا کہ ویٹشیٹے کا مقام جرمن فوج کا مضبوط گڑھ تھا اور یہیں وہ قدیمی باقیات دقن تھیں جنہیں بعد ازاں ’پہلی عالمی جنگ کا پومپئی‘ قرار دیا گیا۔ ایک ہاؤسنگ اسکیم کی کھدائی کے دوران قدیمی قلعے کے نقوش دستیاب ہوئے اور عوامی حمایت سے مزید کھدائی کی گئی۔
تصویر: DW/M. Hallam
قدیمی اشیاء کا مرکز اور ہزاروں باقیات
کھدائی کرنے والوں کو ’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ قرار دیا گیا۔ اس کے لیے عام لوگوں نے چندہ جمع کیا۔ کام کرنے والوں میں کئی بغیر کسی معاوضے کے شریک ہوئے۔ ان افراد نے توقع کے مطابق ایک بیش قیمت مقام کو تلاش کر لیا جہاں ہزاروں اوزار اور ہتھیار دستیاب ہوئے۔
تصویر: DW/M. Hallam
یہاں فوجیوں نے کھدائی سن 1914 میں کی
ویٹشیٹے کا مقام بیلجیم کے اِپرس شہر کے قریب ہے اور یہ فلانڈرز صوبے کا حصہ ہیں۔ یہ بیلجیم کے شمالی ساحلی پٹی کا اندرونی علاقہ ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اِپرس کا شہر برطانوی فوج کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ وہ انگلش چینل سے جرمن فوج کو دور رکھنا چاہتے تھے۔ اس باعث جرمن فوج کی چڑھائی کو روکنا تھا۔ ویٹشیٹے کے مقام پر جرمن فوجیوں کو روک دیا گیا اور پھر انہوں نے قلعہ نما خندقیں کھودیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
عسکری نقطہ نظر سے اہم
اِپرس شہر پر برطانیہ کی توجہ تھی تو ویٹشیٹے کی پہاڑی جرمن فوج کی نگاہ میں اہم تھی اور اس بلند جگہ کو ’ہوہے 80 ‘ یا ’ہِل 80‘ کا نام دیا گیا۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً اناسی میٹر بلند ہے۔ اس پہاڑی سے جرمن کمانڈر اِپرس شہر میں ہونے والی فوجی سرگرمیوں پر واضح طور پر نگاہ رکھنے کی پوزیشن میں تھے۔
تصویر: DW/M. Hallam
گولہ باری سے ویٹشیٹے تباہ ہو گیا
پہلی عالمی جنگ کے تنازعے کے دوران گولہ باری سے ویٹشیٹے کا گاؤں ملیا میٹ ہو کر رہ گیا۔ لیکن اس جگہ پر کھودی گئی خندقوں میں تب بھی فوجی سلامت رہے۔ خندقوں کا اوپری حصہ تباہ ہونے کے باوجود نچلے حصے میں موجود جرمن فوجی اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب رہے تھے۔
تصویر: DW/M. Hallam
فوجیوں کی باقیات اور ایک سو نعشیں
’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ کو کھدائی کے دوران قطعی لاعلم تھی کہ ان قلعہ نما خندقوں میں سے کیا برآمد ہو گا۔ ان خندقوں میں فوجیوں کے زیر استعمال چمڑے کی پیٹیاں، ایک سپاہی کا ہیلمٹ ابتدا میں دستیاب ہوا۔ اندازہ لگایا گیا کہ جرمن فوجیوں کو ابتدائی ایام میں پہلی عالمی جنگ کی شدت کا احساس نہیں تھا۔ وہ اتنے متحرک بھی نہیں تھے کہ اپنے فوجیوں کی نعشیں واپس پہنچا سکیں۔ ایک سو مردہ فوجیوں کی باقیات دستیاب ہوئیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
’خیموں میں مسلسل رہنا کوئی خوشی کی بات نہیں‘
مردہ فوجیوں کے احترام میں ڈوئچے ویلے نے اس کا فیصلہ کیا کہ ایسی تصاویر نہیں لی جائیں گی، جن میں نعشوں کی باقیات نظر آئیں۔ اس مقام کی بھرپور ریسرچ کے لیے ماہرین بشریات اور آثارقدیمہ نے خیمے لگا کر اپنے کام کو جاری رکھا۔ ایک سابقہ برطانوی فوجی اور کھدائی کے رضاکار ناتھن ہووارتھ کا کہنا ہے کہ لوگ ان باقیات کو دیکھ کر مضطرب ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Hallam
’ اوہ! یہ چھڑی تو میری ہے‘
برطانوی فوجی ناتھن ہووارتھ نے اُس واکی ٹاکی کو اپنی چھڑی قرار دیا جو بارودی اسلحے کی دستیابی پر ماہرین اور دوسرے نگران اہلکاوں کو مطلع کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس باعث کھدائی کا عمل احتیاط کے ساتھ جاری رکھا گیا۔
تصویر: DW/M. Hallam
وقت کی ریت کا تھیلا
اس کھدائی کے دوران ایک ریت کا تھیلا بھی دستیاب ہوا، جس نے تقریباً ایک صدی تک سورج کی روشنی نہیں دیکھی تھی۔ اس ریت کے تھیلے کے محفوظ رہنے پر سبھی ماہرین کو حیرت ہوئی کہ یہ رسنے والے پانی اور کیچڑ ہو جانے والی مٹی میں محفوظ کیسے رہا۔
تصویر: DW/M. Hallam
کھدائی کرنے والوں کی بہتات
ویٹشیٹے میں ’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ کا کھدائی کا مشن جمعہ تیرہ جولائی کو مکمل ہوا ہے۔ ایک ہفتہ قبل ڈوئچے ویلے کے نمائندے نے بھی اس مقام کا دورہ کیا۔ نیچے کی بہت نرم زمین کی کھدائی بھی کی گئی اور اس کا مقصد مزید کسی قدیمی شے کی تلاش تھا۔
تصویر: DW/M. Hallam
’بہت کچھ دستیاب ہوا ہے‘
ویٹشیٹے کی پہاڑی کی کھدائی کی ٹیم کئی اقوام کے رضاکاروں پر مشتمل تھی۔ ان کا تعلق بیلجیم، برطانیہ اور بہت سے دوسرے ملکوں سے تھا۔ کھدائی کے دوران فٹ بال ورلڈ کپ پر بھی بحث و تمحیص جاری رہی۔ ہر کھدائی کرنے والا کچھ نہ کچھ ڈھونڈنے میں کامیاب رہا۔
تصویر: DW/M. Hallam
چند مربع کلومیٹر اور قیمتی اشیا
قلعہ نما خندقوں کی کھدائی کا علاقہ چند کلومیٹر پر محیط ہے لیکن اس رقبے میں سے کئی قیمتی اشیا دستیاب ہوئی ہیں۔ بعض کا تعلق فرانسیسی فوجیوں سے بھی ہے۔
تصویر: DW/M. Hallam
’یہ پانی مت پییں‘
فوجی پانی پینے کے لیے تھرموس یا فلاس استعمال کرتے ہیں اور اس کھدائی میں بھی ہلاک ہونے والے فوجیوں کی بند فلاسکس ملی ہیں۔ ان کے ہلانے سے ان میں پانی کی موجودگی کا احساس بھی ہوا۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے ان بوتلوں کے پانی فوری طور پر ضائع کر دیا۔ ان کو بہانے پر کیے گئے سوال کا جواب دیا کہ ہر فلاسک میں پانی نہیں ہے اور بعض میں سے پٹرول بھی ملا ہے۔
تصویر: DW/M. Hallam
13 تصاویر1 | 13
ٹوبیاس لِنڈنر نے کہا، ’’فوجیوں کو ان کے فرائض کی انجام دہی کے دوران مذہبی تائید و حمایت بھی ملنا چاہیے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی عقیدے سے ہو۔ حکومت اس موضوع پر کئی برسوں سے غور کر رہی ہے۔ میری رائے میں عملی فیصلے کا وقت تو کب کا آ چکا ہے۔‘‘
آئمہ کی تلاش مشکل کیوں
جرمنی میں مسلمانوں کی ملک گیر نمائندگی کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں آباد کئی ملین مسلمانوں کا تعلق بہت سی مختلف نسلوں، آبائی قومیتوں اور فرقوں سے ہے۔ ان مسلم نسلی گروپوں اور فرقوں کی نمائندہ اپنی تنظیمیں تو ہیں مگر مسلمانوں کی کوئی مشترکہ اور غیر متنازعہ ملکی تنظیم ابھی تک قائم نہیں ہو سکی۔
اسی لیے وفاقی حکومت کے لیے جرمنی میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق پالیسیوں سے قبل مشاورت کی خاطر اسلام کانفرنس کی سطح پر بھی مسلمانوں کی کوئی متفقہ ملکی نمائندگی دستیاب نہیں۔ اگر سماجی سطح پر اس نمائندگی کا فقدان ہے تو جرمن مسلح افواج میں یہی صورت حال مزید ابہام کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس لیے کہ ملکی سلامتی کے نگران اس ادارے میں کوئی بھی فیصلے اس بنیاد پر نہیں کیے جا سکتے کہ بعد میں مذہبی بنیادوں پر ان کے باعث اختلافات یا بے چین کر دینے والی صورت حال پیدا ہو۔
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی فتح کی یاد میں جشن
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کی یاد منانے کے موقع پر روسی فوج نے اپنی طاقت اور نئی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر پوٹن نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ریڈ اسکوائر میں جشن
روس ہر سال نو مئی کو سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کا جشن مناتا ہے۔ 1945ء کی اسی تاریخ کی نصف شب کو نازی جرمنی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ دیگر اتحادی ممالک مثلاﹰ فرانس اور برطانیہ فتح کا دن آٹھ فروری کو مناتے ہیں۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہونے والی اس پریڈ کی سربراہی روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے کی۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
ریڈ آرمی کے قیام کے 100 برس
2018ء کی یوم فتح کی پریڈ سابق سوویت یونین کی ’ریڈ آرمی‘ کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کی یادگار میں بھی تھی۔ اس موقع پر 13 ہزار کے قریب فوجیوں نے انتہائی منظم انداز میں پریڈ کی۔ اس موقع پر سابق فوجیوں کی کافی تعداد بھی موجود تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی یہ پریڈ دیکھی جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو میں تھے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ایک ’قابل تعظیم‘ چھٹی کا دن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریڈ کے شرکاء سے بات چیت کی، مثلاﹰ تصویر میں نظر آنے والے یوتھ ملٹری گروپ کے ارکان۔ روسی صدر کے مطابق، ’’یہ ایک چھٹی کا دن ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور رہے گا اور یہ ہر خاندان کے لیے قابل تعظیم رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر دنیا کو ان غطیوں سے خبردار کیا جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنیں: ’’انا پرستی، عدم برداشت، جارحانہ قوم پرستی اور منفرد ہونے کے دعوے۔‘‘
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
’روسی کارہائے نمایاں مٹائے نہیں جا سکتے‘
روسی اکثر یہ کہتا ہے کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو شکست دینے میں روس کے کردار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق، ’’یورپ کو غلامی اور مکمل خاتمے کے خطرے اور ہولوکاسٹ کی دہشت سے بچانے میں ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا آج لوگ ان کارناموں کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ روسی صدر نے خود کو روایتی یورپ کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
ہوشیار باش اسنائپرز
ریڈ اسکوائر پر صرف فوجی قوت کا ہی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ اس تمام کارروائی کے دوران ارد گرد کی عمارات پر ماہر نشانہ باز بھی بالکل ہوشیار باش تھے۔ ریڈ اسکوائر ماسکو کے وسط میں واقع ہے اور یہ روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کا علاقہ ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
نئے ہتھیاروں کی نمائش
اس پریڈ کے دوران 159 کی تعداد میں فوجی ساز و سامان کی بھی نمائش کی گئی۔ ان میں میزائل سے مسلح ایک MiG-31 سپر سانک جیٹ بھی شامل تھا۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق زیادہ تر جدید ہتھیاروں کو شامی جنگ میں جانچا جا چکا ہے۔ نمائش کے لیے پیش کیے گئے اسلحے میں ڈرون، باردوی سرنگیں صاف کرنے والا روبوٹ اور انسان کے بغیر کام کرنے والا ٹینک بھی شامل تھا۔