1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن فوج کا دیگر یورپی اقوام کے شہری بھی بھرتی کرنے پر غور

27 دسمبر 2018

جرمن فوج کے سربراہ جنرل ایبرہارڈ سورن نے کہا ہے کہ وہ ملک کی مسلح افواج میں دیگر یورپی اقوام کے شہریوں کی بھرتی پر غور کر رہے ہیں۔

Deutsche Rüstungsexporte Soldatin der Jägertruppe mit Heckler & Koch Sturmgewehr
تصویر: picture-alliance/Tank-Masters.de/R. Zwilling

جرمن فوج کے سربراہ کا خیال ہے کہ فوج میں آئی ٹی ماہرین اور میڈیکل ڈاکٹروں کے شعبوں میں غیرجرمن یورپی شہریوں کو بھرتی کیا جا سکتا ہے۔ اس متنازعہ تجویز پر جرمنی میں مختلف طبقوں کی جانب سے تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ملک کے وفادار شہریوں کی بجائے غیرجرمن شہریوں کی فوج میں شمولیت جرمن فوج کو ’کرایے کی فوج‘ میں بدل دے گی۔

جرمن فوج کے سربراہ جنرل ایبرہارڈ سورن نے جرمنی کے فُنکے میڈیا گروپ سے بات چیت میں کہا کہ اس تجویز کو فی الحال ایک آپشن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ جرمن فوج کو افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے۔ جنرل سورن کے مطابق، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ’’ تمام امکانات پر غور کرنے کی ضرورت‘‘ ہے۔

جرمنی کے اس منصوبے پر یورپی یونین کے مختلف ممالک کی جانب سے بھی ملاجلا ردعمل سامنے آ رہا ہے، جہاں سب سے زیادہ تشویش مشرقی یورپی ممالک کو ہے۔ ان ممالک کو خدشہ ہے کہ جرمنی زیادہ تنخواہیں اور مراعات دے کر ان کے اہم فوجی ماہرین کو اپنی طرف کھینچ لے گا۔ جنرل سورن نے اسی تناظر میں کہا، ’’ظاہر ہے، ہمیں اس معاملے میں محتاط رہنا چاہیے کہ ہمارے دیگر یورپی پارٹنرز ہمیں اپنے مدمقابل سمجھنا نہ شروع کر دیں۔‘‘

جرمن فوج کے سربراہ جنرل ایبرہارڈ سورن نے کہا کہ اس تجویز کو فی الحال ایک آپشن کے طور پر دیکھا جا رہا ہےتصویر: Imago/photothek

کہا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ فقط ان یورپی ریاستوں کے شہریوں کو جرمن فوج میں بھرتی کیا جائے، جو خود بھی دیگر ممالک کے شہریوں کو اپنے ہاں فوج میں جگہ دے رہے ہیں اور اس کے لیے دوطرفہ معاہدے کیے جائیں۔

جرمن پارلیمان کے دفاع کے شعبے کے کمشنر ہانز پیٹر بارٹیلز کے مطابق جرمن فوج میں قریب 13 فیصد تعداد ان افراد کی ہے، جو دوہری شہریت کے حامل ہیں یا جن کا تارک وطن خاندانوں سے تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی میں ایسے افراد کو فوج میں جگہ دینا پہلے ہی ’ایک عمومی سی بات‘ ہے۔

واضح رہے کہ جرمنی میں سن 2011ء میں لازمی فوجی خدمات کا خاتمہ کر دیا گیا تھا، جس کے بعد جرمن فوج کو افرادی قوت میں کمی کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں جرمن فوج روایتی اور سوشل میڈیا پر بھرتی کے لیے مہم بھی چلاتی نظر آتی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ رواں برس کے اختتام تک جرمنی کی مسلح افواج کی کل تعداد ایک لاکھ بیاسی ہزار ہے، جو دو برس قبل فوج کی کم ترین تعداد سے ساڑھے چھ ہزار زائد ہے۔ جرمن حکومت کا ہدف ہے کہ سن 2025 تک اس تعداد کو دو لاکھ تین ہزار کیا جائے۔

فوج کی کوشش ہے کہ جرمنی میں مقیم ان پانچ لاکھ تیس ہزار افراد تک پہنچا جائے، جن کی عمریں 18 تا 30 برس کے درمیان ہیں۔ اس کے لیے فقط یہ شرط رکھی گئی ہے کہ مطلوبہ شخص جرمن زبان بول سکتا ہو، پولیس کی جانب سے بہتر کردار کے سرٹیفیکیٹ کا حامل ہو اور جرمن ریاست کی بقا کے عزم پر قائم ہو۔

ع ت / ا ا 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں