1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن فوج کو یورپی دفاع کے لیے 'ریڑھ کی ہڈی' بنانے کا منصوبہ

10 نومبر 2023

جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے جرمنی 'ایک مضبوط ملک' بنے۔ ان کے مطابق یوکرین کے خلاف روسی جنگ نے جرمنی اور اس کی فوج کے کردار کو تبدیل کر دیا ہے۔

جرمن فوج
جرمن فوج کو مقامی زبان میں بنڈیشویئر کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کی اصلاح کے حوالے سے دستاویز میں کہا گیا ہے کہ فوج کو تمام علاقوں میں جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے تصویر: Matthias Schrader/AP Photo/picture alliance

جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے جمعرات کے روز برلن میں فوجی اصلاحات سے متعلق ایک دستاویز پیش کی، جس میں وہ تمام تفصیلات درج ہیں، جس کے تحت جرمن فوج کی جاری بحالی کے حوالے سے فوجی بیوروکریسی میں اصلاحات کو تیز کرنے کا ارادہ ہے۔

روسی ہیکرز جرمن پاور گرڈ کے لیے خطرہ، جرمن فوج کے ماہر

ان عسکری اصلاحات کا اہم مقصد فوج کو جرمنی اور اس کے اتحادیوں کا دفاع کے قابل بنانا ہے۔

نیٹو کی تاریخ کی سب سے بڑی فضائی مشقیں شروع

اس حوالے سے نئے دفاعی رہنما خطوط میں کہا گیا ہے کہ ''ہمیں مقابلے اور پورے یورپ کے اجتماعی دفاع کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہونا چاہیے۔ ہماری اپنی آبادی کے ساتھ ہی یورپ، شمالی امریکہ اور دنیا میں ہمارے تمام شراکت داروں سے توقع ہے کہ ہم اس ذمہ داری کا سامنا کریں۔''

جرمنی اور جنوبی کوریا کے مابین فوجی رازوں کا معاہدہ

جرمن فوج کو مقامی زبان میں بنڈیشویئر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دستاویز میں مزید کہا گیا کہ ''فوج کو تمام علاقوں میں جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا عملہ اور عسکری ساز و سامان بھی اس لائق ہو کہ مطلوبہ مشن کو پورا کیا جا سکے۔''

جرمنی کی یوکرین کے لیے 2.7 بلین یورو کی نئی فوجی امداد

اس میں مزید کہا گیا کہ اچھی تکنیک اور ہتھیاروں سے لیس ایک ایسی فوج، جو کسی بھی وقت زیادہ شدت کی لڑائی میں فتح حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، ''قابل اعتماد ڈیٹرنس اور امن کو یقینی بنانے کا یہی واحد راستہ ہے۔''

یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر فیصلے کے لیے یہ وقت مناسب نہیں، جرمنی

آخری بار جرمن حکومت نے سن 2011 میں دفاعی پالیسی کے رہنما خطوط سے متعلق اسی طرح کا ایک خاکہ پیش کیا تھا۔

روس ایک بڑا خطرہ

19 صفحات پر مشتمل یہ دستاویز جرمنی کی دفاعی پالیسی میں بڑی تبدیلی کی عکاسی ہے، جسے ''زیٹن وینڈے'' کا نام دیا گیا ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد جرمن چانسلر اولاف شولس نے فروری سن 2022 میں اس کا اعلان کیا تھا۔

اس موقع پر پسٹوریئس نے کہا، ''زیٹین وینڈے کے نفاذ سے جرمنی سکیورٹی پالیسی کی لحاظ سے ایک مضبوط ملک بن جاتا ہے۔''

جرمن وزیر دفاع کے مطابق یوکرین کے خلاف روس کی جارحانہ جنگ کا مطلب یہ ہے کہ براعظم کو ایک نئے فوجی خطرے کا سامنا ہے اور اس صورت حال نے بنیادی طور پر جرمنی اور اس کی افواج کے لیے کردار کو تبدیل کر دیا ہےتصویر: Marcus Brandt/dpa/picture alliance

اس دستاویز کے اجرا سے پہلے جرمن وزیر دفاع نے ایک مقامی اخبار میں مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جارحانہ جنگ کا مطلب یہ ہے کہ براعظم کو ایک نئے فوجی خطرے کا سامنا ہے۔ اس صورت حال نے بنیادی طور پر جرمنی اور اس کی افواج کے لیے کردار کو تبدیل کر دیا ہے۔

 اس طرح اس دستاویز میں جرمنی اور اس کے یورپی اتحادیوں کو درپیش امن و سلامتی کے لیے مسائل کے لیے روس کو ایک طویل مدتی خطرے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

اسلحہ خریداری میں تیزی لانے کا منصوبہ

گزشتہ برس جرمنی نے جدید ہتھیاروں کی خریداری کے لیے 100 بلین یورو کا خصوصی فنڈ قائم کیا تھا، اس کے ساتھ ہی ملک نے سن 2024 کے اوائل سے دفاع پر قومی جی ڈی پی کا کم از کم دو فیصد خرچ کرنے کے نیٹو کے ہدف تک پہنچنے کا بھی وعدہ کر رکھا ہے۔

دفاعی پالیسی کی نئی دستاویز میں جرمن حکومت اور عسکری قیادت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ انتہائی ضروری فوجی آلات اور تعمیراتی پروگراموں کی خریداری میں تیزی لانے کے لیے فوری کارروائی کریں۔

ماضی میں خریداری کی سست رفتاری کی وجہ سے جرمن فوج اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ رپورٹ میں حکام پر اس بات کا بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ معاہدوں کو تیزی سے دینے کے لیے موجودہ مستثنیات کو استعمال کریں اور ساتھ ہی اگر ضروری ہو تو اس کے لیے قانون میں تبدیلی کے لیے بھی زور دیں۔

پسٹوریئس نے البتہ یہ کہتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ بنڈیشور کی اصلاح میں وقت لگے گا، کیونکہ ادارے کو ''دہائیوں سے نظر انداز کیا جا تا رہا ہے'' اور اس پر قابو پانے کی ضرورت ہو گی۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے)

جرمن فوج لیتھوانیا میں تعینات کی جائے گی

02:12

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں