جرمن وزارت دفاع کے مطابق ملکی ملٹری کاؤنٹر انٹیلی جنس ادارہ اس وقت دائیں بازو کے انتہا پسندوں سے متعلق تین سو اکانوے کیسز میں تحقیقات جاری رکھے ہوئے۔ اپوزیشن جماعتوں کے مطابق یہ فوجی ’کسی بھی وقت پھٹ جانے والے بم‘ ہیں۔
اشتہار
جرمن فوج میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں اور نازیوں کے ہمدرد فوجیوں سے متعلق تحققیات میں وسعت پیدا ہوتی جا رہی ہے اور حقائق منظر عام پر لائے جا رہے ہیں۔ جرمنی کے فُنکے میڈیا گروپ نے جمعے کے روز یہ انکشاف کیا ہے کہ ملک میں ملٹری کاؤنٹر انٹیلی جنس سروس ( ایم اے ڈی) نے سن دو ہزار سترہ میں دائیں بازو کی انتہاپسندی سے متعلق دو سو چھیاسی نئے کیس ریکارڈ کیے ہیں۔
اس میڈیا گروپ کے مطابق ملٹری کاؤنٹر انٹیلی جنس ایجنسی رواں برس کے آغاز پر بھی دو سو پچھہتر ایسے کیسز کے بارے میں تحقیقات جاری رکھے ہوئے تھی۔ فنکے میڈیا گروپ کے مطابق یہ رپورٹ وزارت دفاع کی طرف سے پارلیمانی انکوائری کے جواب میں پیش کی گئی ہے۔ ابھی تک نہ تو جرمن وزارت دفاع اور نہ ہی ملکی فوج نے اس حوالے سے باقاعدہ کوئی بیان جاری کیا ہے۔
دائیں بازو کے انتہاپسندوں سے متعلق کچھ کیس گزشتہ برس بھی منظر عام پر آئے تھے اور ان میں سے ایک فرانکو اے سے بھی متعلق تھا۔ آرمی لیفٹیننٹ فرانکو اے دوہری شناخت کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا اور اپریل میں اس وقت پکڑا گیا تھا، جب وہ ایک شامی مہاجر بن کر ایک دہشت گردانہ کارروائی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
اس جرمن فوجی اہلکار کا مقصد یہ تھا کہ کسی مہاجر کی شناخت استعمال کرتے ہوئے کوئی کارروائی کی جائے اور جرمنی میں مہاجرین سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں۔
فرانکو اے کے ساتھ اس کا ایک دوسرا ساتھی ماکسیمیلین ٹی بھی پکڑا گیا تھا۔ یہ دونوں انتہائی دائیں بازو کی آئیڈیالوجی سے متاثر تھے اور ان کو ’ریاست کے خلاف تشدد‘ کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوج ( بُنڈس ویئر) کی بنیاد انیس سو پچپن میں رکھی گئی تھی اور اس دوران کئی سابق نازی فوجی بھی اس میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
جرمنی کی لیفٹ پارٹی میں ملکی پالیسیوں کی خاتون ترجمان اولا یلپکے کا کہنا تھا، ’’نیو نازیوں کے لیے کسی طرح کی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ انہیں فوجی صفوں سے نکال باہر کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ فوجی ایسے بم ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں۔
جرمن فوج کے ساٹھ سال
1955ء میں جرمن فوج کو ملکی دفاع کے مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اپنے قیام کے تقریباً چالیس سال بعد جرمن فوجی پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی فوجی مشن میں شامل ہوئے تھے اور اب یہ معمول بن چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بائیس سال قبل ایک نئی ابتداء
دو اپریل 1993ء کو جرمن حکومت نے سابق یوگوسلاویہ میں شروع کیے جانے والے نیٹو مشن میں جرمن فوجیوں کو شامل کرنے کی اجازت دی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلی مرتبہ تھا کہ جرمن فوجی کسی بین الاقوامی فوجی مشن کا حصہ بنے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Stephanie Pilick
پارلیمان کی برتری
دو جولائی 1994ء کو جرمنی کی آئینی عدالت نے فیصلہ دیا کہ اقوام متحدہ اور نیٹو کے رکن ہونے کی وجہ سے جرمن فوجی ان نتظیموں کے عسکری مشننز میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ اس سلسلے میں پارلیمان کو برتری حاصل ہے اور جنگی کارروائیوں میں شامل ہونے کی اجازت ہر مرتبہ پارلیمان سے لینا لازمی ہے۔
تصویر: Getty Images
کوسوو کی جنگ
1999ء میں نیٹو کے پرچم تلے جرمن فوج نے کوسوو میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر کسی غیر ملکی عسکری کارروائی میں حصہ لیا تھا۔ یہ مشن شہری حقوق کے حوالے سے متنازعہ تھا کیونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے اس کی باقاعدہ اجازت نہیں دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمنی میں شدید احتجاج
کوسوو میں جرمن فوجی اہلکاروں کی کارروائیوں پر ملکی سطح پر شدید احتجاج کیا گیا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ برلن حکومت نے اپنی افواج کو ملک سے باہر جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے کی باقاعدہ اجازت دی تھی۔ اس کے بعد سیاسی سطح پر حالات شدید کشیدہ ہو گئے اور خاص طور پر ماحول دوست گرین پارٹی پر دباؤ بڑھ گیا۔ 1999ء میں پارٹی کے خصوصی اجلاس کے موقع پر گرین پارٹی کے وزیر خارجہ یوشکا فشر پر رنگ بھی پھینکا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دہشت گردی کے خلاف جنگ
گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد برلن حکومت نے بھی انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ آپریشن ’’ اینڈورنگ فریڈم ‘‘ کے تحت جرمن دستے افغان جنگ میں شریک ہوئے۔ ساتھ ہی قرن افریقہ کے پانیوں میں بھی جرمن جنگی بحری جہاز تعینات کیے گئے۔
تصویر: AP
چانسلر شرؤڈر پر دباؤ
انسداد دہشت گردی کی جنگ میں شمولیت کے فیصلے پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی کے مابین شدید بحث ہوئی۔ اس وقت یہ دونوں جماعتیں ہی جرمنی پر حکومت کر رہی تھیں۔ اس موقع پر سوشل ڈیموکریٹ چانسلر گیرہارڈ شرؤڈر نے امریکا کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس مشن میں جرمن افواج کی شمولیت کو پارلیمان میں اعتماد کے ووٹ سے مشروط کر دیا۔ اور وہ اس میں معمولی سے اکثریت سے کامیاب بھی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
افغانستان میں تیرہ برس
2002ء سے جرمن افواج افغانستان میں موجود ہیں۔ تیرہ سالہ اس مشن کے دوران جرمنی کے 54 فوجی ہلاک ہوئے۔ 31 دسمبر 2014ء کو آئی سیف کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا اور اس کے بعد اب صرف ساڑھے آٹھ سو جرمن فوجی مقامی دستوں کو تربیت مہیا کرنے کے لیے افغانستان میں موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قندوز حملہ
چار ستمبر 2009ء میں ان دو آئل ٹینکرز کو نشانہ بنایا گیا، جنہیں طالبان نے اغوا کیا تھا۔ اس کارروائی میں بچوں سمیت سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں تقریباً تمام ہی عام شہری تھے۔ ان ٹینکرز پر حملے کے احکامات ایک جرمن فوجی افسر کرنل گیئورگ کلائن نے دیے تھے۔ یہ جرمن فوج کے کسی بھی حملے میں ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔
تصویر: AP
ترکی میں میزائل شکن نظام
دسمبر 2012ء سے جرمن پیٹریاٹ ( میزائل شکن نظام) جنوب مشرقی ترکی میں نصب ہے۔ شام کی جانب سے کسی ممکنہ میزائل حملے کو ناکام بنانے کے لیے نیٹو کے ایماء پر یہ نظام وہاں نصب کیا گیا۔ اس سلسلے میں 256 جرمن فوجی وہاں تعینات ہیں اور اس مشن کی مدت جنوری 2016ء میں ختم ہو جائے گی
تصویر: picture-alliance/dpa
قزاقوں کے خلاف
امدادی اشیاء سے لدے اور دیگر تجارتی بحری جہازوں کو قزاقوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قرن افریقہ اور خلیج عدن میں یورپی یونین کا اٹلانٹا نامی ایک آپریشن جاری ہے۔ دسمبر2008ء میں شروع کیے جانے والے اس آپریشن میں 318 جرمن فوجی شامل ہیں۔
تصویر: Bundeswehr/FK Wolff
بحیرہ روم میں گشت
بحیرہ روم کے ذریعے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کو ڈوبنے سے بچانے کی کوششوں میں بھی جرمن فوجی پیش پیش ہیں۔ اس سلسلے میں 320 جرمن فوجی ضروری اشیاء سے لدے جہازوں اور تیز رفتار کشتیوں کے ساتھ بحیرہ روم میں اپریل 2015ء سے موجود ہیں۔ مستقبل میں اس آپریشن میں توسیع بھی کی جائے گی۔
تصویر: Bundeswehr/PAO Mittelmeer/dpa
مرنے والوں کی یاد میں
جرمن فوج کی اس ساٹھ سالہ تاریخ میں کل 106 فوجی بین الاقوامی مشنز کے دوران اپنی جان کی قربانی دے چُکے کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں برلن میں ہلاک ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے قائم کی جانے والی یادگار کا افتتاح کیا گیا تھا۔