جرمن فوج کے افغان مددگاروں کی معاونت تنقید کی زد میں
9 اگست 2021
20 سالہ افغان جنگ میں جرمن فوجیوں اور سفارتکاروں کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کی سکیورٹی بھی ایک مسئلہ بن رہی ہے۔ اس تناظر میں جرمن حکومت کی پالیسیوں پر تنقید میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اشتہار
افغانستان میں متعین جرمن فوجیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے مقامی شہری اس وقت انتہائی خوف کا شکار ہیں۔ بالخصوص غیر ملکی افواج کے انخلا کے عمل کے دوران جس طرح طالبان جنگجو اپنے حملوں میں تیزی لے آئے ہیں، خدشات ہیں کہ یہ انتہا پسند ایسے مقامی لوگوں کو بھی نشانہ بنائیں گے، جو غیر ملکی افواج کی معاونت کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ 20 برسوں کے دوران ہزاروں افغان شہریوں نے غیر ملکی افواج اور سفارتکاروں کے لیے بطور مترجم، سکیورٹی گارڈ، مددگار اور متعدد دیگر حوالوں سے کام کیا۔ امریکا نے ایسے افغان شہریوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے خصوصی ویزہ پروگرام شروع کیا ہے تاکہ انہیں جنگ حال ملک سے نکال لیا جائے۔
جرمن فوج نے بھی افغانستان میں قیام کے دوران مقامی لوگوں کو بطور مددگار بھرتی کیا تھا۔ ان میں سے بہت سے افراد کو خوف ہے کہ طالبان جنگجو ان کو اور ان کے گھر والوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ان افغانوں کو مدد فراہم کرنے کے حوالے سے برلن حکومت کی پالیسی پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
9 تصاویر1 | 9
ان افغانوں کے لیے آواز اٹھانے والی ایک تنظیم پی اے او کے سربراہ مارکوس گروٹن نے جرمن اخبار زود ڈوئچے سائٹنگ سے گفتگو میں کہا کہ جرمن حکومت اپنی ''اخلاقی ذمہ داری بھول چکی ہے‘‘۔ پیر نو اگست کو شائع ہونے والے انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا کہ جرمن فوج کے مدد گار مقامی افغان جس طرح خود ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
جرمن پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین وولف گانگ ہیملیش نے کہا کہ یہ کتنا عجیب ہے کہ جو افغان گھرانے ملک چھوڑ رہے ہیں وہ تمام انتظامی کام حتٰی کہ اپنی پروازیں بھی خود ہی بک کر رہے ہیں۔ زود ڈوئچے سائٹنگ سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ ان افغان شہریوں کو مدد فراہم کرنے کے طریقے میں بہت زیادہ بیوروکریسی حائل ہے۔
گرین پارٹی کی پارلیمانی گروپ کی چیئروومن انگیشکا بروگر نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جرمن حکومت تمام مقامی فورسز کو مکمل، جامع اور بروقت مدد فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کئی ہفتے قبل افغان مقامی فورسز کو زیادہ مدد فراہم کرنے کا عندیہ دیا تھا جبکہ مقامی مددگاروں اور ان کے گھر والوں کے ملک سے انخلا کے لیے خصوصی چارٹر فلائٹس چلانے کا اشارہ بھی دیا گیا تھا۔