جرمن فوج کے دو سابق فوجی دہشت گردی کے الزام میں گرفتار
20 اکتوبر 2021
جرمنی میں دفتر استغاثہ کے حکام نے ملکی فوج کے دو سابق ارکان کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔ یہ دونوں سابق فوجی جنگ زدہ عرب ملک یمن میں ایک دہشت گرد گروہ بھیجنے کے ناکام منصوبے کے مرکزی کردار تھے۔
گرفتار شدہ دونوں ملزم وفاقی جرمن فوج کے دو سابق چھاتہ بردار فوجی ہیںتصویر: Philipp Schulze/dpa/picture alliance
اشتہار
وفاقی جرمن دفتر استغاثہ کی طرف سے بدھ بیس اکتوبر کے روز بتایا گیا کہ جرمن فوج کے ان دو سابق فوجیوں پر 'شدید شبہ‘ ہے کہ انہوں نے ملکی فوج کے سابق فوجیوں اور ریٹائرڈ پولیس افسران پر مشتمل ایک نیم فوجی گروپ قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔
حکام نے نجی کوائف کے تحفظ کے جرمن قانون کے تحت ان دونوں کی مکمل شناخت ظاہر نہیں کی اور ان کے نامکمل نام آرینڈ اڈولف اور آخِم بتائے گئے ہیں۔ فیڈرل پراسیکیوٹر آفس کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ان دونوں کو ان کی مبینہ مجرمانہ سوچ کے لیے تحریک اس بات سے ملی کہ اس پیراملٹری یونٹ کے ہر رکن کو متوقع طور پر ماہانہ تقریباﹰ 40 ہزار یورو (تقریباﹰ 46 ہزار 600 امریکی ڈالر) کے برابر رقم ادا کی جانا تھی۔
پیراملٹری یونٹ کے ارکان کی تعداد
اس غیر قانونی پیراملٹری یونٹ کے ارکان کی تعداد 100 اور 150 کے درمیان تک ہونا تھی اور منصوبے کے مطابق کرائے کے ان قاتلوں کو انہیں دو سابق جرمن فوجیوں کی کمان میں اپنا کام کرنا تھا، جنہیں اب گرفتار کر لیا گیا ہے۔
یمن کی طویل خانہ جنگی میں اب تک دس ہزار بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیںتصویر: Mohammed Mohammed/XinHua/dpa/picture alliance
پراسیکیوٹرز کے مطابق یہ دونوں ملزمان اس مسلح گروہ کو کئی سالوں سے خانہ جنگی کے شکار عرب ملک یمن میں مسلح کارروائیوں کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ان کارروائیوں کا مقصد 'علاقے کو ٹھنڈا کرنا‘ اور حوثی باغیوں کو یمنی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کرنا بتایا گیا ہے۔
دونوں گرفتار شدگان کو جنوبی جرمنی سے حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے ایک کو جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ سے اور دوسرے کو باویریا کے ہمسایہ جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ میں بلیک فاریسٹ کے علاقے سے گرفتار کیا گیا۔
یمن میں شہری ہلاکتوں کا خدشہ
جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق گرفتار کیے گئے دونوں سابق فوجیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ یہ جانتے تھے کہ جو پیراملٹری یونٹ وہ قائم کرنا چاہتے تھے، اس کی یمن میں ممکنہ مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں وہاں عام شہری ہلاک یا زخمی ہو سکتے تھے۔
اس کے علاوہ اس گروہ کے ارکان کے طور پر کرائے کے ان ممکنہ قاتلوں کو دیگر خطوں میں جاری مسلح تنازعات میں بھی استعمال کیا جانا تھا۔
یمن: سعیدہ کا موت سے زندگی کی طرف سفر
جنگ زدہ یمن میں اٹھارہ سالہ سعیدہ کئی برسوں سے غذائی قلت کی شکار ہے۔ یہ تصاویر اس کے قبل از وقت موت سے زندگی کی طرف سفر کی کہانی بیان کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مصائب کے خطرناک ثبوت
بحیرہ احمر کے ساحلی شہر الحدیدہ میں اٹھارہ سالہ سعیدہ کی لی گئی یہ تصویر اس کی حالت زار کی عکاس ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ وہاں غذائی قلت کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Zeyad
ایک مسکراہٹ
سعیدہ کو دارالحکومت صنعاء میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہسپتال میں کئی ہفتوں کی نگہداشت کے بعد وہ کم از کم مسکرانے کے قابل ہو گئی تھی۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے اس موقع پر بھی اس کے لیے بولنا مشکل تھا۔ اس کے والدین ابھی تک پریشان ہیں کیوں کہ وہ صرف سیال طبی خوراک کھانے کے قابل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Zeyad
زندگی بھر کا روگ
ڈاکٹروں کے خیال میں اس کی کمزور حالت نے اس کے حلق کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جب اسے ہسپتال لایا گیا تو سعیدہ اپنی آنکھیں تک کھولنے کے قابل نہیں تھی اور نہ ہی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق سعیدہ کے جسم کو اس قدر نقصان پہنچ چکا ہے کہ ہڈیاں کبھی بھی دوبارہ نارمل نہیں ہوں گی۔
تصویر: Reuters/A. Zeyad
آخر کار وزن میں اضافہ
سعیدہ کے والد احمد ہسپتال میں اس کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کی بیٹی کا وزن 16 کلوگرام ہو گیا ہے۔ جب اسے ہسپتال لایا گیا تھا تو اس کا وزن محض 11 کلوگرام تھا۔ مارچ دو ہزار پندرہ سے پہلے ہی سعیدہ کی حالت زیادہ بہتر نہ تھی لیکن یمنی بحران کی وجہ سے بھوک، غربت اور داخلی انتشار میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی عدم تحفظ
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق یمن کی آبادہ تقریبا 28 ملین نفوس پر مشتمل ہے اور ان میں سے تقریباﹰ نصف غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سات ملین یمنی ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں تو انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آئندہ کھانا کب ملے گا۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
سعیدہ ہسپتال سے باہر
جنگ کی وجہ سے عرب دنیا کی غریب ترین یمنی قوم قحط کے دہانے پر کھڑی ہو چکی ہے جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد تین ملین سے بھی زائد ہے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے تعز اور الحدیدہ ہیں، جہاں سے سعیدہ کا تعلق ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کی ایک وجہ
یمن جنگ کے آغاز ہی میں اس ملک میں داخل ہونے والے بحری جہازوں کی آمد و رفت پر پابندیاں عائد کر دی گئیں تھیں۔ یمن کے ساحلوں پر اشیائے خورد و نوش لانے والے بحری جہازوں کی تعداد پہلے کی نسبت تقریبا نصف کم ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/F. Al Nassar
ادھر بھی توجہ دیں
یمنی خواتین غذائی قلت کے شکار ہونے والے بچوں کی تصاویر پر مبنی بینرز اٹھائے احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کا یہ احتجاج اقوام متحدہ کے اس روڈ میپ کے خلاف ہے، جس میں حوثی باغیوں کا دارالحکومت چھوڑنے اور ایک نئے نائب صدر کا اعلان کیا گیا ہے۔ یمن جنگ میں کم از کم 10 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/Yahya Arhab/E
8 تصاویر1 | 8
سعودی عرب سے رقوم لینے کی خواہش
فیڈرل پراسیکیوٹرز آفس کے بیان کے مطابق یہ دونوں ملزمان اس دہشت گرد گروہ کے قیام کے بعد بنیادی طور پر سعودی عرب سے فنڈز لینے کی خواہش رکھتے تھے۔ اسی لیے ان میں سے آخِم نامی ملزم نے سعودی نمائندوں سے بات چیت شروع کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ یہ کوشش تاہم اس لیے ناکام رہی کہ اس حوالے سے سعودی عرب کی طرف سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔
بیان کے مطابق یہ پیراملٹری یونٹ اب تک قائم نہیں ہو سکا تھا مگر اس کے لیے آرینڈ اڈولف نامی ملزم نے کم از کم سات مختلف افراد سے رابطے کر کے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ آیا وہ اس نیم فوجی یونٹ میں شامل ہو سکتے تھے۔
متنازعہ سکیورٹی فرم
جرمن ہفت روزہ جریدے ڈئر اشپیگل کے مطابق، جن دونوں ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ ماضی میں وفاقی جرمن فوج کے چھاتہ بردار فوجی رہے ہیں۔ فوج میں اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد یہ دونوں ملزم 'آسگارڈ‘ (Asgaard) نامی ایک متنازعہ سکیورٹی فرم کے لیے کام کرتے رہے تھے۔
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ڈئر اشپیگل نے لکھا ہے کہ زیر حراست ملزمان میں سے آرینڈ اڈولف نامی سابق فوجی ماضی میں کچھ عرصے کے لیے اس متنازعہ سکیورٹی فرم کا مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہا ہے۔
یمن کی طویل خانہ جنگی
یمن میں خانہ جنگی شروع ہوئے اب کئی سال ہو چکے ہیں۔ اس تنازعے میں ملک کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کو ان حوثی باغیوں کی طرف سے عسکری مزاحمت کا سامنا ہے، جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔
اس تنازعے کے آغاز کے کچھ ہی عرصے بعد ایک فوجی فریق کے طور پر سعودی عرب بھی اس جنگ میں یوں شامل ہو گیا تھا کہ اس نے یمنی حکومت کی حمایت میں ایک بین الاقوامی فوجی اتحاد قائم کر لیا تھا، جس کی طرف سے ایران نواز حوثیوں باغیوں پر مسلسل فضائی حملے کیے جانے لگے تھے۔
م م / ا ا (ٹموتھی جونز)
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔