جرمن فوج کے ڈھانچے میں تاریخی تبدیلیاں
16 دسمبر 2010ملکی کابینہ میں بدھ کو اس نئے فوجی منصوبے پر ووٹنگ ہوئی، جس کے تحت جولائی 2011ء سے لازمی فوجی تربیت کے قانون کا خاتمہ ہوجائے گا، جبکہ فوج کی تعداد ڈھائی لاکھ سے کم کرکے ایک لاکھ 85 ہزار تک کر دی جائے گی۔ 1957ء کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوگا کہ جرمن نوجوان لازمی فوجی خدمات سے مستثنیٰ ہوں گے۔
یہ اصلاحاتی منصوبہ مالی مشکلات کی وجہ سے شروع کیا گیا ہے۔ جرمن وزیردفاع کارل تھیوڈور سو گٹن برگ فوج میں کمی کے نتیجے میں 2014 ء تک آٹھ ارب یورو کی بچت کرنا چاہتے ہیں۔ جرمن وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار گیارہ میں کالج سے فارغ ہونے والے طلبا کو خوش ہونا چاہئے کہ ان کو تربیت کے لئے فوج میں نہیں جانا پڑے گا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا کہنا ہے، ’سرد جنگ کے اختتام کے بعد خطے کی صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ آج ہمارے اردگرد دوست ممالک بستے ہیں۔‘ لیکن اب بھی جرمن فوج کے دروازے ان نوجوانوں کے لئے کھلے ہیں، جو رضا کارانہ طور پر فوجی تربیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان نئی رضا کارانہ خدمات کے فروغ کے لئے حکومت سے 350 ملین یورو مختص کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جرمن سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے دفاعی امور کے ماہر رائنر آرنولڈ ان اصلاحات پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اصلاحاتی پروگرام بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اس اصلاحاتی منصوبے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ پروگرام بغیر کسی ’’اصل مالیاتی منصوبہ بندی‘‘ کے شروع کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ جرمنی نیٹو افواج کا تیسرا بڑا اتحادی ہے۔ افغانستان میں اس وقت چار ہزار چھ سو جرمن فوجی تعینات ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل