جرمن وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل قدامت پسند سیاسی اتحاد کی عوامی مقبولت میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ اس کا فائدہ انتہائی دائیں بازو کی مہاجرت مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی کو ہوا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ایک نئے سروے کے نتائج کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور صوبے باویریا میں اس کی اتحادی و ہم خیال کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کی عوامی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ یہ قدامت پسند اتحاد اس وقت مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار پر اختلافات کا شکار ہے۔
روزنامہ بلٹ میں اتوار کے روز شائع ہونے والے Emnid پول کے نتائج کے مطابق سی ڈی یو اور سی ایس یو کے قدامت پسند اتحاد کی عوامی مقبولیت میں دو فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ اس سروے کے مطابق ان دونوں سیاسی پارٹیوں کی مشترکہ عوامی مقبولیت کم ہو کر اکتیس فیصد ہو گئی ہے۔
جب ’شامی ملکہ’ ہجرت پر مجبور ہوئیں
02:11
اس سروے کے مطابق وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل تیسری سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی عوامی مقبولیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اٹھارہ فیصد ووٹرز بدستور اس کے ساتھ ہی ہیں۔
اس سروے کے نتائج کے مطابق اگر جرمنی میں آئندہ ہفتے الیکشن منعقد کرائے جائیں تو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، کرسچن سوشل یونین اور کرسچن ڈیموکریٹک یونین کا اتحاد 49 فیصد عوامی حمایت حاصل کر پائے گا۔
دوسری طرف جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) کی عوامی مقبولیت میں ایک فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ یوں اس پارٹی کی عوامی مقبولیت سولہ فیصد ہو گئی ہے۔ یہ پارٹی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر پالیسی کی سخت مخالف ہے اور جرمنی میں اس بیانیے کی وجہ سے اس نے گزشتہ برس ہوئے الیکشن میں عوامی حمایت حاصل کر لی تھی۔
جرمنی میں مہاجرین کا بحران ابھی بھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ حالیہ دنوں کے دوران اسی بحران کی وجہ سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی پارٹی سی ڈی یو اور صوبہ باویریا میں اس کی ہم خیال و اتحادی سیاسی جماعت سی ایس یو میں اختلافات شدید ہو گئے ہیں۔
سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کا کہنا ہے کہ چانسلر میرکل کو اس بحران سے نمٹنے کی خاطر جلد از جلد یورپی سطح پر ایک لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے ورنہ دوسری صورت میں وہ یک طرفہ قدم اٹھاتے ہوئے نئے مہاجرین کی ملک کی آمد پر پابندی عائد کر دیں گے۔
ع ب / ص ح / خبر رساں ادارے
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔