جرمن قصبوں کی کم ہوتی ہوئی آبادی، نئے پرائیویٹ اسکولوں سے امیدیں
16 دسمبر 2013دیواروں پر اکھڑے ہوئے پینٹ اور کھڑکیوں کی مرمت طلب صورت حال کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اسکول انتہائی شاندار حالت میں ہے۔ لیکن برِیزَن کا یہ ہائی اسکول ان بہت سے تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے، جو اب کئی مشرقی جرمن قصبوں میں سرکاری اسکولوں کی جگہ قائم ہو چکے ہیں۔
مقامی بلدیاتی اداروں کی نگرانی میں کام کرنے والے ایسے کئی سرکاری اسکول ماضی میں اس لیے بند کر دیے گئے تھے کہ وہاں داخلہ لینے والے بچوں کی تعداد بہت کم رہتی تھی۔ اس کے علاوہ بچوں کی شرحء پیدائش بہت کم رہنے کی وجہ سے مقامی آبادیوں میں بزرگ شہریوں کا تناسب بہت زیادہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس لیے مقامی حکومتی ادارے مسائل کے نئے حل تلاش کرنے پر مجبور تھے۔
کافی عرصے تک برِیزَن کی مقامی بلدیاتی کونسل کے سربراہ رہنے والے پیٹر شٹُم Peter Stumm کہتے ہیں کہ ریاست نے اس خطے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔ جرمنی میں نجی اسکولوں کی تعداد میں یوں تو پورے ملک میں ہی اضافہ ہو رہا ہے لیکن سابقہ مشرقی جرمن ریاست کا حصہ رہنے والے نئے وفاقی صوبوں میں پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد میں خاص طور پر بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
جرمنی کے دوبارہ اتحاد سے پہلے یہ صوبے سابقہ کمیونسٹ جرمنی کا حصہ تھے۔ ان صوبوں میں 2000ء سے لے کر 2011ء تک نجی اسکولوں کی تعداد بڑھ کر دگنی ہو چکی تھی۔ برِیزن کے گاؤں کے اس اسکول کی ہیڈ مسٹریس سِنتھیا وَیرنَر Cynthia Werner کہتی ہیں کہ ایسے اسکولوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے، ’’ہمارے اسکول میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد 78 ہے۔ یہ اسکول کافی چھوٹا ہے۔ لیکن ہم ایک دوسرے کی ضروریات کو سمجھتے ہیں۔ ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کوئی اجتماعی سماجی منصوبہ کیسے کام کرتا ہے۔‘‘
جرمنی میں قومی شرحء پیدائش دیگر صنعتی ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس سال جرمنی میں جو مردم شماری کی گئی، وہ دو عشروں سے بھی زائد عرصے بعد کی جانے والی پہلی مردم شماری تھی۔ اس سے پہلے آخری مردم شماری 1990ء میں جرمن اتحاد سے بھی پہلے کی گئی تھی۔
نئی مردم شماری سے پتہ یہ چلا کہ ملک کی مجموعی آبادی اب تک کے اندازوں کے مقابلے میں 1.5 ملین کم ہے۔ برِیزَن کا گاؤں مشرقی جرمن صوبے برانڈَن بُرگ میں واقع ہے۔
برانڈَن بُرگ میں دیوار برلن گرائے جانے کے بعد آبادی میں کمی ہوئی تھی لیکن اب گزشتہ کئی برسوں سے یہ شرح مستحکم ہو چکی ہے۔ اس میں نہ تو کئی کمی ہوئی یے اور نہ ہی اضافہ۔ لیکن موجودہ صورت حال کے پیش نظر حکام مستقبل کے حالات سے نمٹنے کی تیاریاں ابھی سے کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2030ء تک موجودہ شرحء پیدائش مزید کم ہو کر آدھی رہ جائے گی۔
برِیزَن میں طلباء کی فی جماعت تعداد بہت کم رہ جانے کے باعث ریاستی حکام نے 2007ء میں اس گاؤں میں تمام سرکاری اسکول بند کر دیے تھے، جسے اس گاؤں کی آبادی نے انتہائی برا فیصلہ قرار دیا تھا۔ تب مقامی طلباء تعلیم کے لیے نواحی قصبوں کا رخ کرنے پر مجبور ہو گے تھے۔ پھر مقامی بلدیاتی رہنماؤں نے سوچا کہ اگر اس گاؤں میں کوئی ہائی اسکول نہ ہوا تو آئندہ برسوں میں مقامی آبادی مزید کم ہو جائے گی کیونکہ لوگ اپنے بچوں کے لیے تعلیم کی مقامی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے علاقوں کو جانے لگیں گے۔
اس طرح 2009ء میں اس گاؤں میں پہلے نجی اسکول کا قیام عمل میں آیا۔ یہ اسکول ایک ایسے ادارے کی طرف سے کھولا گیا تھا جو ایک غیر سرکاری، غیر منافع بخش تنظیم کے طور پر مقامی لوگوں نے قائم کیا تھا۔ برِیزَن کا پرائیویٹ ہائی اسکول ایسی عوامی کامیابی کی واحد مثال نہیں ہے۔
ایسے نجی اسکول کئی نئے وفاقی صوبوں کے بہت سے قصبوں اور چھوٹے شہوں میں قائم ہو چکے ہیں۔ ان کا مقصد بچوں کو مقامی سطح پر تعلیم کی سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ ان کے والدین اپنے بچوں کی تعلیم کی وجہ سے کسی دوسری جگہ نقل مکانی کا نہ سوچیں۔ اس کے علاوہ والدین بچوں کی پیدائش سے اس لیے پرہیز نہ کریں کہ وہ تعلیم کہاں حاصل کریں گے۔
جرمنی کے مختلف دیہی اور نیم دیہی علاقوں میں ایسے اسکولوں کا قیام بہت کامیاب ثابت ہو رہا ہے۔ اب ان اسکولوں کی وجہ سے مختلف بلدیاتی اداروں کو یہ امید بھی ہونے لگی ہے کہ یوں وہاں شرحء پیدائش میں کمی کو روکا جا سکے گا اور دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی نہ کرنے کے سلسلے میں مقامی آبادی کی حوصلہ افزائی بھی کی جا سکے گی۔