1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن قصبے سے برطانوی فوجی انخلا: مقامی باشندے افسردہ

2 نومبر 2010

برطانیہ 2020 تک جرمنی سے اپنے 20 ہزار فوجی واپس بلا لے گا۔ اس خبر سے جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے بیرگن میں یکدم اداسی چھا گئی ہے۔

برگن بیلزن کا نازی حراستی کیمپتصویر: AP

بیلزن شمال مغربی جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے ایک قصبے بیرگن میں قائم نازی دور میں ایک اذیتی کیمپ تھا اور اسی لئے اسے بیرگن بیلزن بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا قیام 1943 میں عمل میں آیا تھا۔ اس کیمپ میں یہودیوں کو یرغمال بنا کر رکھا جاتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اُس وقت جرمنی کے جنگی قیدی جہاں کہیں بھی قید تھے، اُن کی رہائی بیلزن کے اذیتی کیمپ میں زیر حراست یہودیوں کے بدلے کروائی جا سکے۔ بیرگن کو 1945 میں اتحادی فوج میں شامل کینیڈا اور برطانیہ کے فوجیوں نے اذیتی کیمپ میں زیر حراست اپنی ڈائری لکھنے والی ایک 16 سالہ یہودی لڑکی آنے فرانک کی موت کے بعد آزاد کروایا تھا۔

15 اپریل 2010 کو بیلزن حراستی کیمپ کی آزادی کے 65 سال مکمل ہوئے تھےتصویر: AP

جرمن شہر ہینوور سے شمال کی طرف واقع اس شہر کے ساتھ ہی Bergen-Hohne گیریزن قائم تھی جہاں برطانیہ کی ساتویں آرمرڈ بریگیڈ تعینات تھی۔ دریں اثناء اس دستے کے فوجیوں کو بوسنیا، کوسوو، عراق اور افغانستان متعین کیا گیا۔ اس قصبے کی کُل آبادی 16 ہزار ہے۔ اس وقت بیرگن ہَونے میں 4100 برطانوی باشندے رہ رہے ہیں، جن میں فوجی، فوج کے دیگر اہلکار اور اُن کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔ ان افراد کی اس علاقے میں موجودگی بیرگن کی اقتصادی شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔

بیرگن کا علاقہ کئی اعتبار سے وہاں آباد برطانوی فوجیوں اور ان کے گھرانوں پر انحصار کئے ہوئے ہے۔ لندن حکومت نے گرچہ کہا ہے کہ 2011ء کے وسط تک وہ بیرگن بیلزن سے اپنے فوجیوں کے انخلاء کے ٹائم ٹیبل کا اعلان نہیں کرے گی تاہم بیرگن کے میئر Rainer Prokop کو پہلے ہی سے اس بات کا علم ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے شہر کے باشندوں کے لئے برطانوی فوجیوں کی وطن واپسی نہایت افسردگی کا باعث بنے گی اور وقت آنے پر وہ سب آبدیدہ ہو جائیں گے۔

بیرگن کے 60 سالہ میئر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’’وہ ہمارے علاقے میں قابض فوجیوں کی طرح آئے تھے، بعد میں انہوں نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا، وقت کے ساتھ ساتھ وہ ملٹری پارٹنر، اور پڑوسی بھی بن گئے۔ یہاں تک بھی ہوا کہ ان میں سے کئی ایک نے یہاں شادیاں بھی کر لیں۔ اب وہ بیرگن کے متعدد بچوں کے والدین بھی بن چکے ہیں۔‘‘

افغانستان متعینہ برطانوی فوجیتصویر: picture-alliance / dpa

برطانیہ کا اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ بیرگن کے مقامی لوگوں کے لئے سب سے زیادہ اس لئے تکلیف دہ ہے کہ اس چھوٹے سے علاقے میں بزنس کا اہم ترین ذریعہ یہی فوجی اور ان کے گھر والے ہیں۔ مختلف پب اور ریستوراں، اس کے علاوہ برطانیہ کے فِش اینڈ چپس اور ڈریس اسٹورز بھی، یہی سب کچھ تو اس شہر کے اقتصادی ڈھانچے کا سب سے بڑا حصہ ہے، جس سے اس علاقے میں رونق رہتی ہے۔

بیرگن کے کچھ مقامی لوگوں کو اس امر پر بھی تشویش ہے کہ مستقبل میں وہاں کی نئی نسل کی انگریزی زبان سیکھنے اور بولنے میں مدد کون کرے گا۔

دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں نیٹو کا ساتھ دیتے ہوئے برطانیہ، امریکہ اور فرانس نے اپنی فوجیں مغربی جرمنی میں تعینات کی تھیں۔ تاہم برطانیہ کی حکومت موجودہ اقتصادی بحران کے دور میں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی طرف سے جرمنی سے فوجی انخلاء کے منصوبے کا اعلان ان کے ملکی بجٹ میں کٹوتی کے اُس پروگرام کا حصہ ہے، جو لندن حکومت باقاعدہ طور پر پیش کر چکی ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں