جرمن قصبے میں انتہا پسندوں نے شبینہ مارچ شروع کر دیا
3 جنوری 2019
جرمن صوبے باویریا کے ایک قصبے میں انتہا پسند جرمن افراد نے رات کے وقت نگرانی کا گشت شروع کر دیا ہے۔ اس قصبے میں چند غیر ملکی تارکین وطن کے حملوں کے بعد انتہا پسندوں نے گشت شروع کیا ہے۔
اشتہار
جرمن انتہا پسندوں نے جس قصبے میں رات کے وقت گلیوں کا گشت شروع کیا ہے، اس کا نام اَم برگ (Amberg) ہے۔ انتہا پسندوں کی سیاسی جماعت این پی ڈی نے اس شبینہ گشت کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں۔ ان تصاویر میں چار افراد سرخ رنگ کی حفاظتی جیکٹوں میں ملبوس دکھائے گئے ہیں۔ اس شبینہ گشت کا مقصد اَم برگ کو محفوظ بنانا بتایا گیا ہے۔ یہ افراد ریفیوجی سنٹر کے بیرونی علاقے میں بھی سرگرم ہیں۔
مقامی افراد نے جرمن انتہا پسند گروپ کا گلیوں میں گشت غیر ملکی تارکین وطن کے راہ گیروں پر اچانک حملوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ان حملوں میں چار افغان اور ایرانی تارکین وطن شامل ہیں۔ انہوں نے یہ حملے گزشتہ ویک اینڈ کی رات میں کیے تھے۔ ان چاروں کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ ان کی عمریں سترہ سے انیس برس کے درمیان بتائی گئی ہیں۔ ان کی وارداتوں سے ایک درجن افراد زخمی ہوئے اور انہیں معمولی نوعیت کے زخم آئے تھے۔ ان زخمیوں میں ایک سترہ سالہ لڑکے کے سر پر وار کیا گیا جس کا ہسپتال میں علاج جاری ہے۔
پولیس نے انتہا پسندوں کی شبینہ گشت کی رپورٹوں کے تناظر میں تفتیشی عمل شروع کر دیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ سلامتی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار ایک ای میل کے ذریعے کیا گیا اور اس میں گروپ نے خود کو ’ کراؤٹ پول‘ قرار دیا ہے۔ اس گروپ نے مقامی انتظامیہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ عام شہریوں کی حفاظت میں ناکام ہو گئی ہے۔
اس گشت پر ام برگ کے میئر میشیل سیرنی ( Michael Cerny) نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اِسے انتہائی پریشان کُن قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ حفاظتی عمل عدم سلامتی کے تناظر میں مقامی شہریوں کے ایک گروپ نے خود سے شروع کیا ہے۔ میئر مشیل سیرنی نے مقامی اخبار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سارے ملک کی طرح ام برگ میں بھی عدم سلامتی اور تشدد کی دھمکیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں کی سیاسی حلقوں کی جانب سے مذمت کی جا رہی ہے۔
ام برگ کا قصبہ جرمن وفاقی صوبے باویریا کے پہاڑی علاقے کی خوشنما وادی میں واقع ہے۔ یہ اکتالیس ہزار نفوس کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ امبرگ دو مشہور قصبوں بےروئتھ اور روزنبُرگ کے درمیان ہے۔ اس شہر میں حالیہ برسوں سے روس سے مہاجرت کرنے والے یہودیوں کی آبادکاری میں اضافہ ہوا ہے۔
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔