1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن قیدی، قرض کی چکی میں پستے ہوئے

14 اکتوبر 2022

جیل جانے والے مقروض افراد جیل سے رہائی کے بعد مزید بھاری قرض تلے دبتے جا رہے ہیں۔ بلند افراط زر کی وجہ سے جرمنی میں جیلیں قیدیوں کے لیے قرض کا پھندا بھی بنتی جا رہی ہیں۔

جرمنی میں بہت کم افراد قیدیوں کے مفادات کے لیے یا ان قیدیوں کو بلند افراط زر سے متعلق متنبہ کرنے کے لیے آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں
جرمنی میں بہت کم افراد قیدیوں کے مفادات کے لیے یا ان قیدیوں کو بلند افراط زر سے متعلق متنبہ کرنے کے لیے آواز اٹھاتے نظر آتے ہیںتصویر: picture alliance/dpa/dpa-Zentralbild

جرمنی میں ایسے افراد جو جیل جاتے وقت مقروض ہوتے ہیں، بتاتے ہیں کہ جیل سے رہائی کے وقت ان کے قرض میں مزید اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ مبصرین کے مطابق خوراک کی قیمتوں میں اضافہ قیدیوں کے لیے پریشان کن ہے اور ایسے میں رہائی کے بعد ان قیدیوں کے دوبارہ جرائم میں ملوث ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

جرمن جیلوں میں انتہا پسندی کے رجحان کو محدود کرنے کی کوششیں

جرمنی میں جیل برائے فروخت

جرمنی میں قریب 45 ہزار افراد  اصلاحی مراکز میں موجود ہیں، جو افراط زر کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ قیدیوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف سپر مارکیٹس کی خصوصی آفرز دیکھ نہیں سکتے اور اسی وجہ سے ڈبل روٹی، مارجرین یا کھانے کی تیل کی کم قیمت فروخت سے متعلق انہیں علم نہیں ہوتا۔ قیدی جرمنی بھر میں قائم ان ایک ہزار فوڈ بینکوں تک بھی نہیں جا سکتے، جہاں غریب افراد کو مفت خوراک مہیا کی جاتی ہے۔

ان قیدیوں کو ہفتے میں ایک بار ایک لسٹ پر اپنی مطلوبہ چیزیں ٹک کرنے کی اجازت ہوتی ہے، جو وہ خریدنا چاہتے ہیں۔ ان بنیادی چیزوں کی قیمتیں بھی باہر کی دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ بلند ہوتی ہیں۔

ایک کمپنی جرمنی کی ایک سو ساٹھ جیلوںمیں ان چیزوں کی سپلائی پر مامور ہے، جہاں منزل واٹر کی بوتل جو ڈسکاؤنٹ پر 19 سینٹ کی ملتی ہے، وہ ان قیدیوں کو 37 سینٹ کی پڑتی ہے، یعنی قریب 80 فیصد زائد قیمت میں۔

قیدیوں کا کوئی پرسان حال نہیں

اس بات پر حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ جرمنی میں بہت کم افراد قیدیوں کے مفادات کے لیے یا ان قیدیوں کو بلند افراط زر سے متعلق متنبہ کرنے کے لیے آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ قیدی جیسے معاشرے کا فراموش کر دیا گیا سیکشن ہیں۔

ژولیان ناگیل، سیکسنی صوبے کی پارلیمان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رکن ہیں اور ان کا شمار ان قیدیوں کے لیے آواز اٹھانے والے چند افراد میں ہوتا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے نیگل نے کہا، ''جیل میں کام کرنے والے قیدیوں کو دی جانے والی انتہائی کم اجرت اب ہر حال میں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سیکسنی میں ان اصلاحی مراکز میں 35 سو میں سے قریب دو ہزار قیدی کام کرتے ہیں اور انہیں فقط سوا دو یورو فی گھنٹا اجرت ملتی ہے، جب کہ انہیں ریاستی پینشن انشورنس نظام میں بھی شامل نہیں کیا جاتا۔‘‘

زیادہ تر قیدی کام کرتے ہیں، درحقیقت جرمنی کی 16 میں سے 12 ریاستوں میں ان قیدیوں کو ہر حال میں کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ باورچی خانوں میں، لکڑی کی ورک شاپس میں، یا دیگر شعبوں میں کام کرتے ہیں اور انہیں فی گھنٹا ایک تا تین یورو ملتے ہیں۔‘‘

کام کی قدر

قیدیوں سے کام کرنے کے درپردہ اصول یہ ہے کہ انہیں سزا کے بجائے روزمرہ کام کے ذریعے عام زندگی کی جانب لوٹایا جائے۔ اس کی ذریعے ان قیدیوں کو رہائیکے بعد کی دنیا کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ بہت سے قیدی اس کم اجرت کی وجہ سے کام میں دلچسپی نہیں لیتے۔ کام کے بدلے ملنے والی معمولی رقم ان کے اپنے خرچے مثلا شیمپو، ریزر، ٹیلی فون کالز یا خوشبو سے متعلق مصنوعات میں خرچ ہو جاتی ہے یا وہ ان پیسوں سے پھل، دہی یا منرل واٹر خرید سکتے ہیں۔

قیدیوں کی جانب سے اب ایک قانونی دعویٰ دائر کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں عام افراد کے لیے مختص کردہ کم از کم اجرت ضرور دی جائے، جب کہ ان کے لیے خوراک سے متعلق اشیاء کی قیمیتں مناسب ہوں۔

قیدیوں کو فنکار بناتی تربیت گاہ

02:52

This browser does not support the video element.

بحالی یا استحصال؟

مانویل ماٹسکے اضافی خوراک کی فہرست پر ٹک کر رہے ہیں اور مہینے بھر کی کل کمائی کی ایک ایک پائی خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ مالی فراڈ کے جرم میں سیکسنی صوبے کی ایک جیل میں قید ماٹسکے اب قیدیوں کی یونین ایسوسی ایشن کے وفاقی ترجمان ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''کام کرنے والے قیدیوں کا سخت استحصال ہو رہا ہے۔ ان اصلاحی مراکز میں انہیں بیچی جانے والی چیزوں کی قیمتیں بدترین حد تک زیادہ ہیں۔‘‘

ماٹسکے اس جوابی دلیل سے واقف ہیں، جس میں کہا جاتا ہے کہ قیدیوں کو نہ تو کپڑے خریدنے پڑتے ہیں نہ بنیادی خوراک اور نہ رہنے کی جگہ، جب کہ قید خانے بھی قیدیوں کے کام سے کوئی منافع نہیں کماتے۔  مگر ماٹسکے کے مطابق، ''قیدیوں کی حالت ریاستی مدد لینے والوں سے بھی بری ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ انہیں سب کچھ پلیٹ میں رکھا مل رہا ہے، تاہم انہیں کام کے پیسے نہیں ملتے، قرض ختم کرنے میں مدد نہیں ملتی۔ یہاں افراط زر کی وجہ سے چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، مگر ہمیں دی جانے والی اجرت میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ ناانصافی ہے اور ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

اولیور پیپر  (ع ت/ ر ب)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں