جرمن لائبریری میں مطالعے کے دوران بہتر توجہ کے لیے سائیکلنگ
15 جنوری 2019
ایک جرمن یونیورسٹی نے یہ منصوبہ شروع کیا ہے کہ اس کی لائبریری میں کتابوں کے مطالعے کے ساتھ سائیکلنگ بھی کی جا سکے گی۔ اس منفرد منصوبے کا مقصد طلبہ کی دوران مطالعہ یوں مدد کرنا ہے کہ وہ زیادہ ذہنی توجہ کا مظاہرہ کر سکیں۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت سے منگل پندرہ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ اختراعی منصوبہ برلن کی فری یونیورسٹی کی ’فیلالوجی لائبریری‘ نے شروع کیا ہے، جہاں اگلے چار ہفتوں تک اس کتب خانے کے ارکان یعنی طلبا و طالبات اور عام قارئین کو یہ سہولت میسر ہو گی کہ وہ کسی بھی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ساتھ ساتھ سائیکلنگ بھی کر سکیں۔
اس منصوبے کی محرک اور یونیورسٹی لائبریری کی خاتون کارکن یانیٹ واگنر نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’یہ سائیکلیں ایسی ’اَیرگومیٹرک‘ سائیکلیں ہیں، جنہیں چلاتے ہوئے قارئین اپنی ذہنی توجہ بھی بہتر بنا سکیں گے اور ساتھ ساتھ ان سائیکلوں سے پیدا ہونے والی بجلی کی مدد سے اپنے لیپ ٹاپ کمپیوٹرز اور موبائل فون بھی چارج کر سکیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’کئی طبی اور سائنسی مطالعے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ اگر کوئی بھی کام کرتے ہوئے ساتھ ساتھ ہلکی جسمانی نقل و حرکت بھی کی جائے، تو یوں ذہنی طور پر کسی بھی عمل پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بڑھائی جا سکتی ہے۔‘‘ اس تجرباتی منصوبے کے پیچھے بھی یہی طبی سائنسی سوچ کارفرما ہے۔
قدیم اور جدید، دنیا کے سب سے خوب صورت کتب خانے
کتب خانوں کی تاریخ چار ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ کہیں گنبدوں اور کہیں ناقابل فہم اڑن کھٹولوں کی اشکال جیسے یہ کتب خانے آج کتابوں کا عالمی دن منا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
راکھ سے اٹھتے ہوئے
شہزادی آنا امالیا لائبریری وائمر کا یہ نام 1991 میں رکھا گیا۔ اس سے قبل تین سو سال تک اس کا نام شاہی لائبریری تھا۔ اس کے مشہور زمانہ روکوکو ہال نامی عمارت آتش زدگی کا شکار ہو کر خاکستر ہو گئی تھی۔ 24 اکتوبر 2007 کو تاہم اسے تعمیر نو اور مرمت کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
فٹ بال کا میدان یا کتب خانہ؟
فکر مت کیجیے، اگر آپ کے پاس اسٹوڈنٹ کارڈ نہیں ہے، تب بھی ہالینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی یہ لائبریری، آپ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ عمارت کی ڈھلوانی طرز پر بنائی گئی چھت پر گھاس اگائی گئی ہے۔ 42 میٹر بلند میں چار منزلیں ہیں اور ہر منزل کتابوں سے بھری ہے۔
تصویر: Nicholas Kane/Arcaid/picture alliance
گلِ لالہ کی لکڑی اور آبنوس
برطانوی اخبار ’ڈیلی ٹیلی گراف‘ نے پرتگال کے کوئنبرا کے علاقہ میں بِبلوٹیکا ژوآنینا کو سن 2013 میں دنیا کی سب سے بہترین لائبریریوں کی فہرست میں رکھا تھا۔ یہ کتب خانہ پرتگال کے بادشاہ جان پنجم کے نام سے موسوم ہے، جنہوں نے اسے تعمیر کیا۔ اس لائبریری میں کتابوں کے تمام شیلف گلِ لالہ اور آبنوس کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images/H. Champollion
روایت اور جدت کا امتزاج
دو ہزار برس قبل آگ کی نذر ہو جانے سے قبل اسکندریہ کا یہ کتب خانہ پوری دنیا میں مشہور تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کتب خانے میں پوری انسانیت کی مجموعی دانش دھری ہے۔ اسکندریہ کی یہ نئی لائبریری، اسی نسبت سے سن 2002ء میں عوام کے لیے کھولی گئی۔ اس پر دو سو بیس ملین ڈالر لاگت آئی۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH
حنوط شدہ لاشوں کے درمیان
سینٹ گالیں، سوئٹزرلینڈ کی اس ایبے لائبریری میں چند حنوط شدہ لاشیں موجود ہیں، جو قریب تیرہ سو برس پرانی ہیں۔ یہاں آنے والے کتابوں کے بیچوں بیچ ان کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ یورپ کی قدیم ترین نقشے والی عمارات میں سے ایک ہے۔ بوشیرزال یا بک ہال کو یونیسکو نے سن 1983 میں عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Stuart Dee/robertharding
صدر نے بچایا
کانگریس کی اس لائبریری ضرور جائیے۔ واشنگٹن ڈی سی میں اس لائبریری کی بنیاد 1800 میں رکھی گئی تھی مگر صرف 14 برس بعد اسے برطانیہ نے جلا ڈالا تھا۔ تھومس جیفرسن، جو امریکا کے تیسرے صدر تھے، نے اپنی ذاتی ملکیت کی کوئی ساڑھے چھ ہزار کتب فروخت کر کے اس کے لیے 24 ہزار ڈالر کا سرمایہ جمع کیا اور اسے دوبارہ تعمیر کیا۔
تصویر: picture-alliance/JOKER/H. Khandani
خیالِ بلوط
ڈبلن میں دو منزلہ عمارت اولڈ ٹرنیٹی کالج کی 64 میٹر لمبے اور 12 میٹر چوڑے کمرے پر مشتمل لائبریری ہے۔ یہ جگہ کبھی اتنی دل کش نہیں تھی، جیسی اب ہے۔ سن 1885 میں اس کی پلاسٹر والی چھت ہٹا کر بلوچ کی لکڑی سے اسے دوبارہ آراستہ کیا گیا۔
تصویر: Imago/imagebroker
چین میں سب کچھ بڑا ہے
چین کی نیشنل لائبریری میں تین کروڑ کتابیں ہیں۔ چین کا یہ کتب خانہ دنیا کے سات سب سے بڑے کتاب گھروں میں سے ایک ہے۔ اسے 1809 میں مرکزی کتب خانے کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا، تاہم بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے بیجنگ لائبریری رکھ دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Zhao
8 تصاویر1 | 8
دوران تعلیم نقل و حرکت کی افادیت
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یانیٹ واگنر نے جب کتب خانوں کے انتظامی امور سے متعلق اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی، تو ان کا تحقیقی موضوع بھی یہی تھا: ’’نقل و حرکت مطالعے اور حصول تعلیم میں مدد دیتی ہے۔‘‘ اس سلسلے میں بہت سے طلبا و طالبات سے یہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی تھی کہ وہ اس یونیورسٹی لائبریری میں دوران مطالعہ کس طرح کی بہت ہلکی جسمانی ورزش کرنا پسند کریں گے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ایسی خاص طرح کی سائیکلیں استعمال کی جائیں، جو قارئین کو کتب بینی کے عمل میں زیادہ ذہنی توجہ کا موقع بھی مہیا کر سکیں اور ساتھ ہی لیپ ٹاپ کمپیوٹرز اور موبائل فونز کو ری چارج کرنے کے لیے بجلی بھی پیدا کر سکیں۔
بائیسکل کی ایجاد اور اس کا دو سو سالہ سفر، چند دلچسپ حقائق
دو سو سال قبل ایک جرمن کارل فان ڈرائس نے دو پہیوں پر چلنے والی ایک ایسی مشین بنائی تھی، جو آگے چل کر آج کی بائیسکل کی بنیاد بنی۔ آج یہ ایجاد دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Scheuber
ایک جرمن ایجاد
کارل فان ڈرائس نے دو پہیوں والی اپنی مشین سن 1817ء میں بنائی تھی۔ اُس نے ’ڈرائیسینے‘ کہلانے والی اس مشین کو ایک سے دوسری جگہ زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پہنچنے کے لیے استعمال کیا۔ تب پیڈل نہیں تھے اور دو پہیوں والی اس مشین کو آگے بڑھانے کے لیے سوار کو اپنے پاؤں سے زمین پیچھے کی جانب دھکیلنا پڑتی تھی۔ 1860ء کے عشرے میں فرانس میں ’ڈرائیسینے‘ کو زیادہ بہتر بنا کر بائیسکل کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/maxppp
بائیسکل: آزادی کا احساس
اُنیس ویں صدی میں حقوقِ نسواں کی علمبردار امریکی خاتون سُوزن بی اینتھنی نے، جو ’خواتین کے حقوق کی نپولین‘ بھی کہلاتی تھیں، لکھا تھا: ’’میرے خیال میں دنیا میں خواتین کو مساوی حقوق دلانے کے سفر میں کسی بھی اور چیز سے زیادہ بائیسکلنگ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ سواری خواتین کو آزادی اور خود اعتمادی کا احساس دیتی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gerten
ایک اختراع سے مزید اختراعات
رائٹ برادران نے پہلا ہوائی جہاز تو بعد میں بنایا، پہلے اُن کی امریکی ریاست اوہائیو کے شہر ڈیٹن میں بائیسکل مرمت کرنے کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ یُوں اوروِل اور وِلبر رائٹ کو ایک اچھا روزگار بھی حاصل تھا اور معاشرے میں ایک باعزت مقام بھی لیکن یہ دکان اُن کے مکینیکل تجربات کے لیے بھی بہت اہم تھی۔ اسی ورکشاپ میں بننے والے رائٹ فلائر نے 1903ء میں زمین سے بلند ہو کر پہلی اڑان بھری تھی۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press
چیمپئنز کی روایت کی بنیاد
1903ء ہی میں ’ٹُور ڈی فرانس‘ کی صورت میں پہلی سائیکل ریس شروع ہوئی۔ اب اس ریس کو دنیا بھر میں سب سے پرانی اور ممتاز سائیکل ریس کا درجہ حاصل ہے۔ ہر سال اس کا رُوٹ تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے قواعد و ضوابط ہمیشہ ایک جیسے رہتے ہیں۔ اس شاندار ریس کا اختتام ہمیشہ فرانسیسی دارالحکومت پیرس کی مشہور شاہراہ شانز ایلی زے پر ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Conservatoire du Patrimoine Sportif
دو پہیوں پر پوری دنیا کا سفر
فریڈ اے برکمور (1912ء تا 2012ء) ایتھنز (یونان) کا ایک مشہور مہم جُو تھا۔ اُس نے 1935ء میں بائیسکل پر پوری دنیا کا سفر کیا تھا اور یورپ، ایشیا اور امریکا میں مجموعی طور پر چالیس ہزار میل (پینسٹھ ہزار کلومیٹر) سے زیادہ سفر کیا تھا۔ ان میں سے پچیس ہزار میل برکمور نے خود بائیسکل چلائی، باقی کا پانیوں پر سفر کشتیوں کے ذریعے تھا۔ اس دوران اُن نے سات مرتبہ اپنی بائیسکل کے ٹائر بدلے۔
تصویر: DW/K.Esterluß
بائیسکلز کا عالمی صدر مقام
ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کو دنیا بھر میں بائیسکلز کا صدر مقام کہا جاتا ہے۔ یہاں مجموعی آبادی کا اندازاً 63 فیصد یعنی کوئی آٹھ لاکھ انسان روزانہ بائیسکل استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح اس شہر میں آمدورفت کے لیے بائیسکل کے استعمال کی شرح بتیس فیصد، کاروں کی شرح بائیس فیصد جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی شرح سولہ فیصد ہے۔ شہر کے مرکزی علاقے میں بائیسکل کے استعمال کی شرح اڑتالیس فیصد تک ہے۔
تصویر: AP
یورپ میں سائیکلنگ
یورپی بائیسکل انڈسٹری کی کنفیڈریشن نے 2016ء کے لیے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اُن کے مطابق براعظم یورپ میں ہر سال اکیس ملین بائیسکل یا برقی قوت سے چلنے والے بائیسکل فروخت ہوتے ہیں۔ ان میں سے تیرہ ملین وہ ہیں، جو اسی براعظم میں تیار ہوتے ہیں۔ بائیسکل تیار کرنے والی یورپی صنعت سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ستّر ہزار سے زیادہ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/R. De Waal
ایک مسلسل ترقی کرتی صنعت
2015ء میں بائیسکل کی عالمی منڈی کے مالیاتی حجم کا اندازہ 45.1 ارب ڈالر (40.3 ارب یورو) لگایا گیا تھا۔ 2016ء سے لے کر 2024ء تک کے لیے اس صنعت میں نمو کی سالانہ شرح کا اندازہ 3.7 فیصد لگایا گیا تھا۔ اس حساب سے اس صنعت کا مالیاتی حجم اگلے عشرے کے وسط تک 62.4 ارب ڈالر تک پہنچتا نظر آ رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
8 تصاویر1 | 8
ایک سائیکل ساڑھے تین ہزار یورو کی
اس تجربے میں استعمال ہونے والی ’اَیرگومیٹرک‘ سائیکلوں میں سے ہر ایک کی قیمت قریب ساڑھے تین ہزار یورو ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو پھر یہ لائبریری باقاعدہ طور پر ایسی سائیکلیں خرید لے گی۔ فی الحال یہ سائیکلیں مستعار لی گئی ہیں۔
تجرباتی مرحلے کی کامیابی کی صورت میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جرمنی کی کئی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی ایسی ہی سائیکلیں متعارف کرا دی جائیں۔ یہ سائیکلیں بیلجیم کی ایک کمپنی بناتی ہے اور وہ پہلے ہی سے بیلجیم اور جرمنی کے کئی ہوائی اڈوں پر بھی استعمال کی جا رہی ہیں۔
تعلیم اور مطالعے کے دوران سائیکلنگ کا تصور اب جرمنی کے شمالی شہر بریمن میں بھی زیر استعمال ہے۔ شمالی جرمن شہری ریاست بریمن میں کھیلوں کی تعلیم سے متعلق ایک خصوصی اسکول کے طلبہ وہاں اپنی کلاسوں میں دوران تعلیم پہلے ہی ایسی سائیکلیں چلاتے ہیں۔
م م / ع س / ڈی پی اے
یورپ میں سائیکلنگ کے دس بہترین رُوٹ
یورپ میں سائیکل سواروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ تقریباﹰ سبھی یورپی ممالک میں سائیکلیں چلانے والوں کے لیے علیحدہ راستے موجود ہیں۔ آئیے یورپ میں سائیکلنگ کے دس بہترین راستوں کی سیر کرتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/Arco Images/K. Kreder
دسواں نمبر: ڈراوا سائیکلنگ رُوٹ
اٹلی میں جنوبی ٹیرول سے سلووینیہ تک 366 کلومیٹر طویل سائیکل راستہ ہے، جس کا ایک سرا دریائے ڈراوا کے منبع سے جڑا ہے۔ اگلے کچھ برسوں میں اسے دریائے ڈینیوب اور کرویشیا سے گزرنے والے دریائے ڈراوا تک بڑھا دیا جائے گا۔
یہ راستہ چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ سے شروع ہوتا ہے اور دریائے اَیلبے کے کنارے کنارے 1220 کلومیٹر تک آگے بڑھتے ہوئے اسی دریا کے ساتھ ریتلی چٹانوں کے علاقے کرکونوسے جرمن شہروں ڈریسڈن، ماگڈے بُرگ اور ہیمبرگ سے ہوتا ہوا بحیرہ شمالی تک جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/P. Zimmermann
آٹھواں نمبر: کلاؤڈیا آگُسٹا رُوٹ
کلاؤڈیا آگُسٹا رُوٹ نامی یہ سائیکلنگ ٹریک جرمن علاقے ڈوناؤ وؤرتھ سے شروع ہو کر قریب سات سو کلومیٹر دور اطالوی شہر وَینس تک جاتا ہے۔ اس قدیم رومن راستے کے ذریعے سائیکل سوار ایلپس کے پہاڑی سلسلے اور جنوبی ٹیرول کی رَیشن جھیل کو بھی عبور کرتے ہیں۔
یہ راستہ سوئٹزرلینڈ کے علاقے مالویا سے ہو کر جرمن شہر پاساؤ سے بھی گزرتا ہے۔ راستے میں پڑنے والے ایلپس کے اونچے پہاڑیوں کی وجہ سے ٹانگوں کے مضبوط پٹھے درکار ہوتے ہے، تاہم سائیکل سواروں کو نہایت حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔ یہ راستہ جرمن علاقے باویریا سے ہوتا ہوا دریائے اِن (Inn) کے کنارے قصبے مِیوہل ڈورف کے مارکیٹ اسکوائر سے بھی گزرتا ہے۔
تصویر: picture alliance/A. Weigel
چھٹا نمبر: بحر اوقیانوس سے بحیرہء اسود تک
یہ ساڑھے چار ہزار کلومیٹر سے بھی طویل سائیکلنگ رُوٹ بحر اوقیانوس کے کنارے فرانس کی Loire وادی سے شروع ہو کر بحیرہ اسود تک جاتا ہے۔ مشرق اور مغرب کو ملانے والے اس راستے میں یورپی ثقافت اور تاریخ کے شہری نمونوں کے نمائندہ نانت، اورلیاں، بازل، لِنس، بوڈاپسٹ، بلغراد اور بخارسٹ جیسے کئی شہر پڑتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB/W. Thieme
پانچواں نمبر: اَیچ سائیکل رُوٹ
یہ قریب تین سو کلومیٹر طویل راستہ رَیشن سے ویرونا تک دریائے اَیچ کے ساتھ ساتھ جاتا ہے، جو جنوبی ٹیرول کا سب سے لمبا دریا ہے اور بحیرہ آڈریا میں جا کر گرتا ہے۔ کلاؤڈیا آگُسٹا سائیکلنگ ٹریک کے متوازی بنایا گیا یہ رُوٹ بہت ہی خوبصورت ہے۔
تصویر: picture-alliance/U. Bernhart
چوتھا نمبر: بحیرہ شمالی کا ساحلی سائیکل رُوٹ
بحیرہ شمالی کے کنارے کے ساتھ ساتھ چلنے والا یہ راستہ چھ ہزار کلومیٹر طویل ہے، جو جزائر شَیٹ لینڈ سے ناروے میں بَیرگن کے علاقے تک جاتا لے۔ یہ راستہ یورپی سائیکلسٹوں کی فیڈریشن کے نیٹ ورک میں شامل ’یورو وَیلو 12‘ رُوٹ کہلاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Klein
تیسرا نمبر: جھیل کونسٹانس سائیکل رُوٹ
جھیل کونسٹانس کا سائیکلنگ ٹریک سب سے زیادہ استعمال ہونے والے سائیکلنگ راستوں میں تیسرے نمبر پر آتا ہے یہ 260 کلومیٹر طویل ہے اور جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اس جھیل کے کناروں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسی لیے سائیکل سوار اس راستے کے وہ مناظر دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں، جو اپنی مثال آپ ہیں۔
تصویر: picture alliance/P. Seeger
دوسرا نمبر: رائن سائیکل رُوٹ
سوئٹزرلینڈ میں دریائے رائن کے منبع سے ڈچ شہر روٹرڈم کے قریب بحیرہ شمالی تک جانے والے اس راستے کو ’یورو وَیلو 15‘ کا نام دیا جاتا ہے، جو 1230 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ راستہ دنیا کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے سائیکل ٹریکس میں سے ایک سمجھا جاتاہے۔
تصویر: picture alliance/H. Ossinger
پہلا نمبر: ڈینیوب بائیک پاتھ
یہ جرمنی کا سب سے معروف طویل المسافتی سائیکلنگ ٹریک ہے۔ ڈینیوب بائیک پاتھ ساڑھے اٹھائیس سو کلومیٹر طویل ہے۔ یہ برَیگ کے جرمن علاقے سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے دریائے ڈینیوب جنم لیتا ہے اور وہاں سے رومانیہ میں ٹولچیا کے نواح میں ڈینیوب کے ڈیلٹا تک جاتا ہے۔ اسی راستے پر آسٹرین دارالحکومت ویانا بھی واقع ہے۔ یہ سائیکل رُوٹ اور دریا دونوں آٹھ ملکوں سے گزرتے ہیں۔