رواں برس کے دوران جرمن عوام کو لاحق مختلف خوف کی نشاندہی ایک سروے رپورٹ میں کی گئی ہے۔ سیاسی بے یقینی کے دور میں جرمن شہریوں کے ذہن سن 2019 کے دوران جنم لینے والے مختلف واقعات سے متاثر ہیں۔
اشتہار
جرمن زبان میں خوف کے لیے 'آنگسٹ‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک نئے سروے کے نتائج سے واضح ہوا ہے کہ جرمن شہریوں کے ذہنوں میں سن 2019 کے دوران عالمی بے چینی کے باوجود بعض مختلف خدشات، جنہیں خوف قرار دیا جا سکتا ہے، نے جنم لیا ہے۔
جرمن عوام میں سالانہ بنیاد پر خوف کے بارے میں سروے رپورٹ آر پلس وی (R+V) نامی انشورنس کمپنی مکمل کرواتی ہے۔ یہ جرمنی کی سب سے بڑی انشورنس کمپنی ہے۔ یہ کمپنی سن 1992 سے یہ سالانہ سروے رپورٹ مرتب کرانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
آر پلس وی کی رپورٹ کے مطابق جرمن عوام میں سیاسی اور عالمی امور کے تناظر میں پیدا ہونے والے خوف میں انتالیس فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ماحولیاتی خدشات خیال کیے گئے ہیں۔
رواں برس جرمن عوام کا سب سے بڑا خوف مہاجرین سے پیدا ہونے والی بحرانی صورت حال ہے۔ مہاجرین کے بحران کے بعد پہلی مرتبہ جرمن عوام میں اس صورت حال نے خوف کی کیفیت پیدا کی ہے۔
مہاجرین کے خوف کو سب سے اہم قرار دینے والے جرمن شہریوں کا تناسب چھپن فیصد ہے اور اس کی وجہ مہاجرین کے حوالے سے ہونے والے ناپسندیدہ تجربات ہیں۔ ماہر نفسیات اُلرش واگنر کے مطابق اس خوف کے پیدا ہونے کی وجہ جرمن ذرائع ابلاغ میں مسلسل اس معاملے کو زیر بحث لانا بھی ہو سکتا ہے۔
اس سروے رپورٹ کے مطابق سابقہ مشرقی جرمنی والے علاقوں میں بمقابلہ سابقہ مغربی جرمنی والے علاقوں کے خوف کی شرح دس فیصد زیادہ ہے۔ اس میں ایک وجہ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ کی بڑھتی مقبولیت بھی خیال کی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق جرمنی کے مشرقی حصے میں کم آمدنی بھی ایک بڑا خوف ہے اور ماہرین سماجیات کے مطابق غیر ملکیوں کو روزگار کی دستیابی بھی خوف کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
اسی طرح جرمن عوام میں کینسر اور عوارض قلب سے بھی خوف پایا جاتا ہے۔ ان دونوں امراض کو جرمنی میں سب سے بڑا 'کِلر‘ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کاروں کے حادثات کا بھی خوف سامنے آیا ہے۔ ماہر نفسیات واگنر کے مطابق بظاہر جرمن لوگوں میں مختلف طرح کے تجربات سے خوفزدہ ہونے کی شرح معمول سے زیادہ ہے۔ واگنر کے مطابق جرمن عوام کی زندگیوں میں خوف کا پایا جانا ایک معمول ہے۔
عام جرمن لوگوں میں پائے جانے والے خوف میں سن 2004 کے بعد شروع ہونے والی عالمی اقتصادی بدحالی، دہشت گردی اور امریکا میں منصبِ صدارت سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ بھی شمار کیے جاتے رہے ہیں۔
ایلیٹ ڈگلس (عابد حسین)
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔