1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن لڑکیوں کو داعش میں شامل ہونے سے کیسے بچائیں

امجد علی26 جون 2015

زیادہ سے زیادہ نوجوان جرمن لڑکیاں جا کر دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے کی خواہش مند ہیں لیکن جرمن وزیر داخلہ توماس ڈے میزیئر اُنہیں ایسا کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔

Symbolbild Deutsche Frauen beim IS
یہ تصویر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی ایک پراپیگنڈا ویڈیو سے لی گئی ہے، جس میں خواتین جنگجوؤں کو شام میں لڑائی میں شریک ہوتے دکھایا گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں جرمن وزیر داخلہ توماس ڈے میزیئر نے کہا کہ وہ اپنی توجہ زیادہ سے زیادہ ایسی جرمن لڑکیوں پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں، جو داعش کے نام نہاد ’جہاد‘ میں شریک ہونا چاہتی ہیں۔

ڈے میزیئر کے مطابق ایسا کرتے ہوئے وہ صرف سکیورٹی ایجنسیوں کی ہی مدد نہیں لینا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ ایک ابتدائی مرحلے پر ہی ان لڑکیوں کو اس تنظیم کے حوالے سے تمام تر حقائق سے آگاہ کیا جائے۔جرمن پریس ایجنسی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں ڈے میزیئر نے کہا: ’’نوجوان لڑکیوں کو خریدا اور بیچا جاتا ہے، غلام بنایا جاتا ہے، اُن کی آبروریزی کی جاتی ہے اور اُن کے ساتھ انسانی وقار کے منافی سلوک کیا جاتا ہے اور یہ بات ان لڑکیوں پر واضح کی جانی چاہیے۔ ریاست کو والدین، اسکولوں، اساتذہ، تنظیموں اور مساجد کی انجمنوں کی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر کیسز میں گھر کے لوگوں اور دوستوں کو شروع ہی میں اس طرح کے اشارے ملنے لگتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ جرمن سکیورٹی ادارے ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں شامل ہونے کی خواہاں نوجوان جرمن لڑکیوں کو وہاں جانے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں، ڈے میزیئر کا کہنا تھا: ’’ہم نے کافی اقدامات کیے ہیں، لوگوں کی شناختی دستاویزات ضبط کی ہیں، پاسپورٹ واپس لیے ہیں، اُن کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر تفتیش کر رہے ہیں، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، تقریباً ہر ہفتے لوگوں کو ترکی کا سفر اختیار کرنے سے روکا جا رہا ہے۔

ڈے میزیئر کا کہنا تھا:’’ہم ترکی اور دیگر ملکوں کے خفیہ اداروں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں، اس کے باوجود داعش کے ساتھ جا ملنے کے خواہاں افراد کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اور جرمنی ہی نہیں ہمارے تمام ہمسایہ یورپی ملکوں میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ اب تک ایسے افراد کی تعداد سات سو کے لگ بھگ ہے۔ ان میں بہت سی خواتین بھی شامل ہیں۔ خواتین کی تعداد اگرچہ کم ہے لیکن مسلسل بڑھ رہی ہے۔‘‘

جرمن وزیر داخلہ توماس ڈے میزیئرتصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka

اس سوال کے جواب میں کہ جرمن سکیورٹی اداروں کو لوگوں کو شام اور عراق جانے سے روکنے کے سلسلے میں ناکامی کہاں درپیش ہے، ڈے میزیئر نے کہا: ’’ہم لوگوں کے ایک مختصر لیکن خطرناک قرار دیےجانے والے گروپ کو اس بات کا قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے کہ آئی ایس ایک دہشت گرد اور جرائم پیشہ گروہ ہے۔ اب ہم نے کافی پیسے ایسے پروگراموں کے لیے مختص کیے ہیں، جن کا مقصد لوگوں کو بہت شروع میں اس تنظیم کی طرف سے درپیش خطرات سے آگاہ کرنا ہے۔ سوشل میڈیا پر آئی ایس کے کامیاب پراپیگنڈا کے جواب میں اب تک جو جوابی اقدامات ہم نے کیے ہیں، وہ کامیاب ثابت نہیں ہو رہے۔‘‘

ایسی صورتِ حال میں کیا کچھ کیا جانا چاہیے، اس سوال کے جواب میں ڈے میزیئر نے کہا کہ اہم بات یہ ہو گی کہ جن لوگوں کو منفی تجربات ہوئے ہیں اور جنہوں نے اس تنظیم کو چھوڑا ہے، وہ اپنے تجربات بیان کریں اور لڑکیوں کو بتائیں کہ وہاں ان کے ساتھ کیسا کیسا انسانیت سوز سلوک ہو سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں