1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن ماحولیاتی تنظیم ڈوئچے ’اُم ویلٹ ہِلفے‘ کی تازہ رپورٹ

21 اپریل 2011

اپنی نوعیت کی اِس پانچویں رپورٹ میں اِس تنظیم DUH نے کہا ہے کہ جرمنی کے سرکردہ سیاستدانوں کی جانب سے سرکاری کاروں میں ایندھن کے استعمال کی صورتِ حال میں محض معمولی سی ہی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

ہائیڈروجن سے چلنے والی کار
ہائیڈروجن سے چلنے والی کارتصویر: picture alliance / dpa

یورپی یونین نے 140 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ فی کلومیٹر کا معیار مقرر کر رکھا ہے، جس پر اِس رپورٹ کے مطابق کسی ایک بھی وفاقی جرمن وزیر کی سرکاری گاڑی پورا نہیں اتر سکی ہے۔ صوبے ہیسے کے وزیر اعلیٰ فولکر بُوفیے کے ہاں یہ مقدار 348 گرام فی کلومیٹر جبکہ اُن کے وزیر داخلہ بورس رائن کے ہاں تو 353 گرام فی کلومیٹر ریکارڈ کی گئی۔ تاہم DUH کے مرکزی ناظم الامور یُرگن ریش کے مطابق اِس موضوع پر بار بار زور دینے سے سیاستدانوں پر ماحول دوست طرزِ عمل اختیار کرنے کے سلسلے میں دباؤ بڑھ رہا ہے اور اُن میں سے کئی ایک کے ہاں زیادہ سے زیادہ مثبت ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جرمن سیاسی رہنما اب ماحول دوست کاروں میں سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماحول کو درپیش چیلنجوں کے پیشِ نطر عام جرمن باشندے کی سوچ میں بھی کوئی تبدیلی آئی ہے؟

ماحول دوست ہائبرڈ کاریں بوقتِ ضرورت کبھی بجلی اور کبھی پٹرول سے چلائی جا سکتی ہیںتصویر: Picture-Alliance/dpa

جرمنی میں رجسٹرڈ کاروں کی تعداد 45 ملین ہے، جن میں بہت زیادہ پٹرول خرچ کرنے والی بڑی کاریں بھی شامل ہیں۔ جرمنی اور یورپ کے سب سے بڑے آٹو موبائیل کلب ADAC کی نمائندہ یاکلین گرونے والڈ بتاتی ہیں کہ کار کے سفر کا شوق پورا کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ انسان کے پاس لازمی طور پر کوئی بڑی ہی گاڑی ہو۔ وہ بتاتی ہیں:’’قدرے چھوٹی گاڑی نہ صرف کم خرچ ہو گی بلکہ ضرر رساں مادے بھی کم مقدار میں فضا میں خارج کرے گی۔‘‘

برقی کاریں نہ صرف مہنگی ہیں بلکہ چارج ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ 150 کلومیٹر کا ہی فاصلہ طے کر پاتی ہیںتصویر: picture alliance / dpa

یاکلین گرونے والڈ کے مطابق گزشتہ چند برسوں سے زیادہ سے زیادہ جرمن باشندوں میں چھوٹے سائز کی کاریں خریدنے کا رجحان نظر آ رہا ہے۔ اب ماحول دوست ہائبرڈ کاروں کا رواج بھی بڑھتا جا رہا ہے، جو اگرچہ ابھی مہنگی ہیں تاہم بوقتِ ضرورت کبھی بجلی اور کبھی پٹرول سے چلائی جا سکتی ہیں۔ سرِدست جرمن سڑکوں پر ایسی کاروں کی تعداد محض کوئی تیس ہزار بنتی ہے تاہم ADAC کی گرونے والڈ کہتی ہیں:’’کاریں تیار کرنے والا شاذ ہی کوئی ادارہ ہو گا، جو ہائبرڈ موٹر گاڑیوں پر غور نہیں کر رہا ہو گا۔ برقی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ اب سے دَس بیس برسوں بعد ہم ہائیڈروجن سے چلنے والی کاروں میں سفر کر رہے ہوں گے۔ یہ ٹیکنالوجی بھی ترقی کی جانب گامزن ہے اور یقیناً مستقبل میں صورتِ حال بالکل مختلف ہو گی۔‘‘

ابھی کئی برسوں تک سڑکوں پر دھواں اگلتی کاریں ہی رواں دواں رہیں گیتصویر: picture-alliance/dpa

کاروں کے سلسلے میں نت نئی ٹیکنالوجی کے شعبے میں براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے تاہم اِس شعبے میں تحقیق جرمنی میں بھی بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ مثلاً برلن میں قائم ایک انجینئرنگ ادارے IAV کے پچاس کارکن ہمہ وقت نت نئی ٹیکنالوجی اور خاص طور پر برقی کاروں کے موضوع پر کام میں مصروف رہتے ہیں۔ وفاقی جرمن حکومت آنے والے برسوں میں برقی کاروں کی ترویج و ترقی کے شعبے میں پانچ سو ملین یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ سرِ دست برقی کاریں نہ صرف مہنگی ہیں بلکہ چارج ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ 150 کلومیٹر کا ہی فاصلہ طے کر پاتی ہیں۔

رپورٹ: فریڈل ٹاؤبے / امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں