کورونا وائرس کا اپ ڈیٹ دینے والے ممتاز جرمن ماہر وائرولوجی کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ ان دھمکیوں پر سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے۔
اشتہار
کورونا وائرس کی مہلک وبا کے دوران ہر ملک میں کم از کم ایک شخص اس مرض سے متعلق عوام کو اپ ڈیٹ کرتا ہے۔ یہی ماہرین حکومت کو وبا سے نمٹنے کے حوالے سے مشورے بھی دیتے ہیں۔ جرمنی میں کورونا وائرس کی وبا سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ معروف ماہر وائرولوجی کرسٹیان ڈروسٹن پیش کرتے رہے ہیں اور اس باعث انہیں ہر جرمن گھر پہچاننے لگا ہے۔
کرسٹیان ڈروسٹن نےایک ماہ قبل اپریل میں برطانوی اخبار گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے بیان کیا تھا کہ انہیں قتل کی دھمکیوں کا سامنا ہے اور ایسی دھمکیوں کی تفصیلات انہوں نے ملکی پولیس کو فراہم کر دیں ہیں۔ اسی طرح رواں برس مئی میں بھی مختلف نوعیت کی دھمکیاں انہیں ملی ہیں۔
وائرس سے پھیلنے والے امراض کے ماہر کرسٹیان ڈروسٹن جرمن دارالحکومت کے بڑے ہسپتال شاریٹے سے منسلک ہیں۔ وہ کورونا وائرس کی نئی قسم سے پھیلنے والی بیماری کووڈ انیس کے حوالے سے جرمن نشریاتی ادارے این ڈی آر کے پروگرام 'دس کورونا وائر اپ ڈیٹ‘ میں روزانہ اس وبا کے بارے میں تفصیلات پیش کرتے رہے ہیں۔ اس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اس کی پوڈکاسٹ کو اب تک تینتالیس لاکھ مرتبہ ڈاؤن لوڈ یا سنا گیا۔
مہلک وبا کے دوران کیے گئے لاک ڈاؤن نے جب طوالت اختیار کی تو لوگوں میں اس کے خلاف بیزاری نے جنم لینا شروع کر دیا۔ جوں جوں عوامی بے چینی میں اضافہ ہوتا گیا تو ردعمل کے طور پر لوگوں کی کثیر تعداد نے عملی مظاہروں میں شریک ہونا بھی شروع کر دیا۔ ڈروسٹن اور ان کے ساتھیوں پر الزام تراشی کے سلسلے میں کہا گیا کہ وہ صورت حال کو انتہائی زیادہ گھمبیر کر کے پیش کر رہے ہیں اور یہ سارے معاملے کے تاریک پہلو پر ہی فوکس کیے ہوئے ہیں۔
اس طرح ایک ہفتہ قبل ممتاز جرمن اخبار 'بلڈ' نے بھی ڈروسٹن پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے کووڈ انیس کے حوالے سے بچوں میں اس کے پھیلنے سے متعلق مرتب کی جانے والی ریسرچ رپورٹ میں جعلی اعداد و شمار پیش کیے ہیں اور اس کے پس پردہ سیاسی محرکات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس رپورٹ میں ڈروسٹن اور ان کے دوسرے ریسرچرز نے بیان کیا تھا کہ کووڈ انیس بیماری کا وائرس بالغوں اور بچوں میں بھی پھیلنے کی قوت رکھتا ہے۔
'بلڈ‘ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ڈروسٹن کی رپورٹ نے حکام کو بچوں کے اسکولوں اور کنڈرگارٹن بند رکھنے پر مجبور کیا ہے۔ اس اخباری رپورٹ کے بعد ڈروسٹن کی حمایت میں سوشل میڈیا پر بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ممتاز ماہر اقتصادیات ژؤرگ شٹوئے کا کہنا ہے کہ اخباری رپورٹ حقیقت میں وائرولوجسٹ ڈروسٹن کو بدنام کرنے کی منظم مہم ہے۔ دوسری جانب لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہزاروں افراد نے لاک ڈاؤن کے تسلسل کو سازشی نظریات کی وجہ قرار دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے ڈروسٹن اور ان جیسے دوسرے ماہرین کے حکومتی حلقے کو دیے جانے مشوروں پر انگلیاں اٹھانی شروع کر دیں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا، آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
15 تصاویر1 | 15
مئی کے مہینے میں جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ کی کھمبوں پر ایسے اسٹکرز چسپاں کر دیے گئے جن میں ڈروسٹن کو نازی دور حکومت کے بدنام ڈاکٹر ژوزف مینگیلے کے طور پر پیش کیا گیا۔ مینگیلے نے آؤشوئٹس میں مریض قیدیوں پر خوفناک تجربات کیے تھے۔ ان اسٹکرز پر 'یقین کریں میں ایک ڈاکٹر ہوں‘ کی عبارت بھی درج ہے۔
رکن پارلیمنٹ اور وبائی امراض کے ماہر کارل لاؤٹرباخ کو ایک مہلک محلول والی بوتل بذریعہ پوسٹ ملی اور اس پر'پازیٹو‘ لکھا تھا۔ اور یہ بھی درج تھا،'اسے پی لیں‘۔ ایک گھنٹے بعد وائرولوجسٹ ڈروسٹن کو بھی ایسا ہی محلول ملا۔ لاؤٹرباخ کو تو ایک پوسٹ کارڈ پر دھمکی بھی دی گئی۔ جرمن پولیس نے ایسی دھمکیوں کی تفتیش شروع کر دی ہے۔
ڈروسٹن ماہرین وائرولوجی کی اس ٹیم کا حصہ رہے ہیں جنہوں نے سن 2013 میں سارس وائرس کو دریافت کیا تھا۔