جرمن حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پُرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن بہت کم واقعات میں مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں دی گئیں۔
اشتہار
جرمنی میں اس برس اپریل اور جون کے درمیان سولہ مسلمان اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں کے باعث زخمی ہوئے۔ اس کے مقابلے میں سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران ملک بھر میں ایسے صرف دو واقعات پیش آئے تھے۔
وفاقی حکومت نے یہ اعداد و شمار جرمن پارلیمان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی رکن اُولا یلپکے کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جاری کیے ہیں۔ یلپکے کے دفتر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ رواں برس کی دوسری سہ ماہی کے دوران جرمنی میں اسلاموفوبیا پر مبنی تیرہ پرتشدد حملے کیے گئے جن میں سولہ مسلمان زخمی ہوئے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک واقعے کے سوا سبھی میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد ملوث تھے۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
پرتشدد حملوں میں اضافے کے علاوہ بھی جرمنی میں ان تین ماہ کے دوران اسلاموفوبیا پر مبنی قریب دو سو واقعات رجسٹر کیے گئے ہیں۔ ایسے واقعات میں عمارتوں کو نقصان پہنچانے سے لے کر مسلمان مخالف جذبات اور نفرت پھیلانے جیسے جرائم شامل ہیں۔
بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی جرمن سیاسی جماعت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں مہاجرین مخالف جرائم میں کمی ہوئی ہے ’لیکن مہاجرین کے خلاف نسل پرستی پر مبنی جرائم کے برعکس خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنا کر کیے جانے والے جرائم میں اضافہ ہوا ہے‘۔
خاتون رکن پارلیمان کا کہنا تھا، ’’ان واقعات سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ جرمنی میں بسنے والے مسلمان خاص طور پر انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کا ہدف بن رہے ہیں۔‘‘ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے یلپکے کا مزید کہنا تھا، ’’اس بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ دہشت گردی اور نفرت پر مبنی جرائم کس نے کیے، ان واقعات کی ہمیشہ اور ہر صورت میں مذمت کی جانا چاہیے۔‘‘
جرمنی میں مسلمان کمیونٹی کی تنظیم آئی جی ایم جی نے ان اعداد و شمار کو خوفناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جرمن حکام ’ان واقعات کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اقدامات کرے۔ ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’اسلاموفوبیا کے خلاف واضح اقدامات کیے جانا چاہیں۔‘‘
دوسری جانب برلن حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مہاجرین اور اسلام مخالف تنظیم ’پیگیڈا‘ کے مظاہروں میں شرکا کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ ڈریسڈن میں اس تنظیم کے ہفتہ وار مظاہرے کو حکومت نے اسلاموفوبیا پر مبنی مظاہرہ قرار نہیں دیا لیکن نیو نازیوں کی جانب سے مئی کے مہینے میں جرمنی کے مشرقی حصے میں ایک مسجد کی تعمیر کے خلاف کیے گئے مظاہرے کو دوٹوک الفاظ میں ’اسلاموفوبیا پر مبنی مظاہرہ‘ قرار دیا گیا ہے۔