جرمنی میں آباد مسلمانوں کی تعداد تقریبا پانچ ملین بنتی ہے۔ انتقال کے بعد زیادہ تر مسلمان جرمنی میں ہی دفن کیے جاتے ہیں تاہم اس یورپی ملک میں قبرستانوں کی کمی ہو چکی ہے۔
اشتہار
جرمنی کی مجموعی آبادی تراسی ملین ہے، جس میں مسلم آبادی کا تناسب پچاس لاکھ سے زائد ہے۔ مسلمانوں کی اس آبادی میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر جرمن مسلمان انتقال کے بعد جرمنی میں ہی تدفین چاہتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں مسلمانوں کی تدفین کے مسائل شدید ہوتے جا رہے ہیں۔
جرمن شہر ووپرٹال میں مسلم قبرستانوں کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین ضمیر بوعیسیٰ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''زیادہ سے زیادہ مسلمان اب جرمنی میں ہی اپنی آخری رسومات ادا کرانا چاہتے ہیں۔‘‘ پچپن سالہ ضمیر مراکش میں پیدا ہوئے تھے تاہم ان کا گھرانہ اڑتالیس سال قبل جرمنی منتقل ہو گیا تھا۔
ضمیر کی کوشش ہے کہ جرمنی میں ایک ایسا قبرستان بنایا جائے، جس کا انتظام صرف مسلم کمیونٹی کے ہاتھ میں ہی ہو۔ اس وقت جرمنی میں واقع ایسا کوئی بھی قبرستان نہیں، جس کا انتظام و انصرام مسلمانوں کے پاس ہی ہو۔
جرمنی میں تیس ہزار کے لگ بھگ قبرستان ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی کا انتظام کرسچن کلیساؤں کے پاس ہے۔ باقی سبھی قبرستانوں کا انتظام شہری میونسپلٹیوں کے ذمے ہے۔ جرمنی کے سولہ کے سولہ صوبوں میں تدفین کے قواعد و ضوابط مختلف مگر انتہائی پیچیدہ اور سخت ہیں۔
جرمنی میں مسلمانوں کی آمد
ساٹھ برس قبل جرمنی کی تعمیر نو کے لیے ترکی سے مسلمانوں نے جرمنی کا رخ کیا۔ تب انہیں گیسٹ ورکرز کہا جاتا تھا۔ تاہم ان میں سے بہت سے لوگوں نے جرمنی ہی رہنے کا منصوبہ بنا لیا۔ تاہم انہوں نے اپنی ثقافتی و مذہبی روایات کا دامن نہ چھوڑا۔
چھ عشروں قبل البتہ جرمنی میں آباد ہونے والے مسلمانوں کو اپنے رشتہ داروں کی تدفین میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس وقت جرمنی میں تابوت کے بغیر مردے کا دفنانا قانونی طور پر منع تھا۔ لیکن بعد ازاں مسلمانوں اور یہودیوں کی وجہ سے جرمنی میں تدفین کے قوانین میں ترامیم کر دی گئیں۔
جرمنی میں اب بھی مونسپلٹی دفتر ہی قبر مختص کرتا ہے۔ تاہم مسلمانوں کے لیے قبر کا حصول انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ہی برلن حکام نے خبردار کیا تھا کہ قبرستانوں میں دفنانے کی جگہ تقریبا ختم ہو چکی ہے۔
ضمیر کا کہنا ہے کہ جرمنی میں مسلم کمیونٹی کو اپنے رشتہ داروں کو دفنانے کی خاطر بعض اوقات ہمسایہ میونسپلٹیوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔
آبائی شہر میں تدفین
برلن۔ ٹمپل ہوف میں واقع ترک تنظیم دیتپ کے زیر انتظام شیخ مسجد میں تقریبا روز ہی کسی نہ کسی کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اور بعد ازاں میت کو جہاز کے ذریعے واپس ترکی روانہ کر دیا جاتا ہے۔ ترک نژاد کچھ جرمن شہری چاہتے ہیں کہ انہیں ان کے آبائی شہر میں دفنایا جائے۔
ترک اسلامک یونین برائے مذہبی امور (دیتپ) نے جرمنی میں آباد ترک مسلمانوں کے لیے 'تدفین کی انشورنس‘ کی ایک اسکیم بنا رکھی ہے۔ اس انشورنس کے تحت جرمنی میں انتقال کر جانے والے افراد کو واپس ترکی لے جانے اور وہاں ان کی آخری رسومات ادا کرنے کے اخراجات یہی ادارہ اٹھاتا ہے۔
ضمیر نے بتایا ہے کہ اس طرح کی انشورنس مراکش، الجزائر اور تیونس کے لیے بھی دستیاب ہے۔ اس انشورنس کے تحت لوگ ماہانہ یا سالانہ ایک چھوٹی سی رقم ان اداروں کو ادا کرتے ہیں تاکہ وقت پڑنے پر ان اداروں کی خدمات حاصل کی جا سکیں۔
اشتہار
مسلمانوں کا قبرستان
جرمن دارالحکومت میں واقع 'ترکش سمٹری برلن‘ جرمنی میں مسلمانوں کا قدیم ترین قبرستان ہے۔ اس کی بنیاد سن 1866 میں رکھی گئی تھی۔ یعنی یہ قبرستان 1871ء میں جرمن ایمپائر بننے سے بھی پہلے قائم کیا گیا تھا۔
تاہم جدید دور میں جرمنی میں مسلمانوں کے زیر انتظام اولین قبرستان بنانے کی کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ ضمیر کا کہنا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ جلد ہی جرمنی میں انہیں اس حوالے سے کامیابی حاصل ہو جائے گی۔
ضمیر بو عیسیٰ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ مسلمانوں کا یہ قبرستان ایک ماڈل ثابت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس قبرستان کا مقام تجویز کر دیا گیا ہے، جو شہر میں واقع مسحیوں اور یہودیوں کے قبرستانوں کے نزدیک ہی ہے۔
ضمیر کے بقول یہ انتہائی اہم معاملہ ہے اور اس میں دیر نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی میں مسلمانوں کے لیے نئے قبرستان بنانے کی ضرورت اس لیے بھی بڑھ چکی ہے، کیونکہ یہاں آنے والے مسلمان مہاجرین شاید اب کبھی واپس نہیں جا سکیں گے، ''ان لوگوں کو بھی ایک دن تدفین کی جگہ درکار ہو گی۔‘‘
کرسٹوف سٹارک (ع ب، ع ت)
یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا
آخری آرام گاہ: جرمنی میں تدفین کی روایات
جرمنی میں کفن دفن کے حوالے سے سخت روایت ہیں اور اُن پر کاربند رہنا لازمی بھی خیال کیا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے اس فوٹو گیلری میں مختلف روایات کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔
تصویر: Museum für Sepulkralkultur Kassel
آخری آرام گاہ
جرمن دفتر شماریات کے مطابق سن 2016 میں نو لاکھ سے زائد کی اموات ہوئی تھی۔ جرمنی میں قریب سبھی شہروں اور قصبوں میں قبرستان موجود ہیں۔ دوسری جانب تدفین کے طریقوں میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ اس میں خاص طور پر قبرستان میں روایتی ہریالی والی جگہوں سے اجتناب کیا جانے لگا ہے۔
تصویر: Imago/W. Otto
تدفین کے روایتی طریقے
کفن دفن مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور اس باعث قبرستانوں میں مخصوص خاندانی جگہوں پر سرمایہ کاری میں کمی ہو چکی ہے۔ جرمن شہروں کے رہائشی کم خرچ تدفین کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ اس میں بھی تابوت یا جلائے گئے مردے کی راکھ کے لیے مخصوص برتن ضروری ہے۔ مردے کو نذر آتش کرنے کے بعد راکھ سربمہر برتن میں محفوظ کر کے کسی قبرستان میں دفن کرنا بھی اہم ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
بعد از موت
جرمنی میں جلائے گئے مردے کی راکھ رکھنے کے لیے خوبصورت نقش و نگار سے مزین اور وقت کے ساتھ مٹی میں شامل ہونے والے خاص برتن بھی اب اہم ہو چکے ہے۔ شہروں میں مردہ جلانے کی روایت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ سن 2015 میں جرمن ریاست بریمن نے بعد از موت تدفین کے ضابطوں میں نرمی پیدا کی اور اس کے تحت اہل خانہ اپنے جلائے ہوئے مردے کی راکھ اپنے مکان کے عقبی باغیچے میں پھیلا سکتے ہیں۔
تصویر: Klaus-Dietmar Gabbert/picture-alliance/dpa
اپنی جڑوں کی جانب واپسی
جرمنی میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ مردے کی راکھ بتدریج مٹی میں شامل ہونے والے برتن میں رکھ کر کسی درخت کی جڑوں میں دفن کر دی جاتی ہے۔ اس کے لیے جنگل میں مخصوص علاقے مختص ہیں۔ ایسی تدفین کے لیے کوئی نگران مقرر نہیں کیا جاتا۔ جنگل میں خاکدان رکھنے کے مقام پرشمعیں جلانا اور پھول رکھنے کی ممانعت ہے۔ یہ کھلا مقام قدرتی اور پرسکون محسوس خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Arno Burgi/picture-alliance/dpa
تابوت سازی
جرمنی میں تابوت سازی کے لیے مخصوص ورکشاپ قائم ہیں۔ اس تصویر میں لاعلاج مریضوں کے مرکز کی انچارج لیڈیا رؤڈر کے ساتھ تابوت پر نقش و نگار کی آرٹسٹ آنا ایڈم کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اپنے ہاتھ سے تابوت تیار کرتی ہیں۔ اس کی قیمت چند سو یورو ہے جو مارکیٹ میں دستیاب تابوت کی قیمت سے بہت کم ہے۔ جرمن مارکیٹ میں تابوت کی قیمتیں ایک ہزار یورو سے شروع ہوتی ہیں۔
تصویر: Christian Lohse
تدفین سے قبل رحلت پانے والے کا دیدار
یورپ میں رحلت پانے والے خاندان کے لوگ انتہائی قریبی احباب کے لیے تابوت کو دفن کرنے سے قبل کھولتے ہیں اور چہرے کا دیدار کرتے ہیں۔ یہ کئی یورپی ممالک میں مقبول ہے لیکن جرمنی میں اس کی روایت قدرے کم ہے۔
تصویر: Roland Mühlanger/Imago
اظہار تعزیت اور ہمدردی
جرمن محکمہ ڈاک نے رحلت کے موقع پر اظہار افسوس کے روایتی خط یا پوسٹ کارڈ روانہ کرنے کے حوالے سے خصوصی اور یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی تخلیق کیے ہیں۔ تدفین کی رسومات میں شرکت کے لیے بھی خصوصی پوسٹ کارڈ دستیاب ہیں۔ یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ غم زدہ خاندان کو پھول دینا بہتر ہے یا عطیات دیے جائیں۔
تصویر: Dagmar Breitenbach/DW
تدفین، سماجی رویے اور طعام
جرمنی میں تدفین اور دعائیہ عبادت کے بعد خصوصی دعوت پر قریبی دوست احباب اور رشتہ داروں کو دعوتِ طعام بھی دی جاتی ہے۔ اس دعوت میں کافی، سینڈوچز اور کیک کھانے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس موقع پر خاص طور پر رحلت پا جانے والے کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ ایسی دعوت طعام میں روایتی اسنیک Leichenschmaus بھی تیار کر کے رکھا جاتا ہے۔
تصویر: Daniel Karmann/picture alliance/dpa
گورکن بننے کا علم
جرمن حکومت نے سن 2005 میں مستقبل کے گورکنوں کی تربیت پر توجہ دینی شروع کی۔ اس مقصد کے لیے ایک مرکز باویرا کے شہر میونسٹر اشٹڈ میں قائم کیا گیا۔ خصوصی ماہر ٹیچرز گورکنوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اس مرکز میں تربیت کا دورانیہ تین برس پر محیط ہے۔ کورس میں تدفین کی رسومات کے علاوہ غم زدہ خاندانوں کو تسلی تشفی دینے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اسی مرکز میں چین اور روس کے گورکن بھی اعلیٰ تربیت کے لیے آتے ہیں۔
تصویر: C. Löwinger
گورکنی کے عملی پہلو
تدفین کے سلسلے میں خاص طور قبر کھودنے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ قبر کھودنے میں اطراف کی دیواروں کا خاص انداز میں تیار کرنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ قبر کے کتبے کے بوجھ یا بارش کے پانی سے منہدم نہ ہو جائے۔ اسی طرح مردے کی خاک والے برتن کو کس انداز میں قبر میں رکھنا چاہیے۔ اس مناسبت سے باویرین انڈرٹیکرز ایسوسی ایشن نے میونسٹراشٹڈ میں سن 1994 سے تربیتی قبرستان قائم رکھا ہے۔
تصویر: Rosina Eckert
تدفین کی رسومات اور ثقافت
جرمن شہر کاسل میں تدفین سے جڑی رسومات کا ایک خاص عجائب گھر قائم کیا گیا ہے۔ یہ عجائب گھر سن 1992 میں کھولا گیا تھا۔ اس میں قبر، قبرستان اور کفن دفن کے حوالے سے معلومات میسر ہیں۔ تابوت لے جانے والی جدید کار کے ساتھ اسی میوزیم سے حاصل کی گئی تصویر میں سن 1880 میں میت لے جانی گھوڑا گاڑی دکھائی گئی ہے۔