’جرمن مسلم شناخت‘ ہے کیا؟ غلط فہمیوں سے قبل وضاحت کا مطالبہ
25 اگست 2018
جرمنی میں یہ مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں کہ یہ وضاحت کی جائے کہ ’جرمن مسلم شناخت‘ سے مراد کیا ہے؟ کئی دانشوروں کے بقول اگر یہ وضاحت جلد نہ کی گئی تو یہ اصطلاح بھی ’جرمن اسلام‘ کی طرح ایک مخاصمانہ اصطلاح بن جائے گی۔
اشتہار
جرمن شہر کولون سے ہفتہ پچیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ای پی ڈی کی رپورٹوں کے مطابق معروف صحافی، مصنف اور ترک نژاد جرمن شہری ایرن گیُووَیرچِن بھی اب یہ مطالبات کرنے والے جرمن دانشوروں میں شامل ہو گئے ہیں کہ اس امر کی وضاحت کے لیے اس پر کھل کر بحث کی جانا چاہیے کہ جب ’جرمن مسلم شناخت‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، تو اس سے مراد کیا لی جاتی ہے؟
گیُووَیرچِن کے بقول یہ بلاتاخیر وضاحت اور اس موضوع پر تفصیلی مباحثہ اس لیے بھی ضروری ہیں کہ ایک اصطلاح کے طور پر ’جرمن مسلم شناخت‘ بھی ’جرمن اسلام‘ کی طرح کوئی ایسی مخاصمانہ اصطلاح نہ بن جائے، جس سے مراد منفی ہو اور جس کے استعمال کیے جانے کو مسلمان اپنے خلاف تنقید یا تنقیدی سوچ کا مظہر سمجھیں۔
ایرن گیُووَیرچِن (Eren Güvercin) جرمنی کی الحمرا سوسائٹی کے بانیوں میں سے ایک اور اس تنظیم کی مجلس عاملہ کے رکن بھی ہیں۔ یہ غیر سرکاری تنظیم قریب ایک سال قبل قائم کی گئی تھی اور اس کے قیام کا مقصد جرمنی میں مسلمانوں کو مذہبی، ثقافتی اور سماجی مباحثوں کے لیے ایک وسیع تر پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
ایرن گیُووَیرچِن نے پروٹسٹنٹ کلیسائی نیوز سروس ای پی ڈی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمنی میں مسلمانوں کی نمائندہ بڑی تنظیموں کی طرف سے، جن پر ترک ثقافت اور ترکی کے اثرات بہت زیادہ ہیں کیونکہ جرمنی میں مسلمانوں کی اکثریت ترک نژاد ہی ہے، مساجد اور سماجی مراکز میں ایسی زیادہ کوششیں نہیں کی جاتیں کہ ان جملہ موضوعات پر بھی گفتگو کی جائے، جو بالعموم جمعے کے خطبات میں شامل نہیں ہوتے۔
سینتیس سالہ قانون دان اور ماہر سماجیات گیُووَیرچِن کے بقول جرمنی میں مسلمانوں کی اکثر تنظیمیں اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کی شناخت یعنی ’جرمن مسلم شناخت‘ کو مثبت طور پر پیش کرنے میں اس لیے ناکام رہی ہیں کہ وہ زیادہ تر ان مسلمانوں کے تارکین وطن کے پس منظر کو ہی ان کی شناخت کے طور پر کسی نہ کسی طور زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ایرن گیُووَیرچِن نے اپنے اس انٹرویو میں کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جرمن معاشرے میں یہ واضح کیا جائے کہ ’جرمن مسلم شناخت‘ کی تعریف کیا ہے، تاکہ ’جرمن اسلام‘ کی طرح یہ اصطلاح بھی وقت کے ساتھ ساتھ مثبت کے بجائے کوئی منفی ترکیب نہ بن جائے۔
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert
9 تصاویر1 | 9
اس ترک نژاد جرمن مصنف کے مطابق اسے مباحثے کے ساتھ جرمن معاشرے میں غیر مسلم اکثریت پر یہ واضح کرنے میں بھی مدد ملے گی کہ ’جرمن اسلام‘ اور ’جرمن مسلم شناخت‘ بھی اتنے ہی مثبت سماجی حقائق ہیں اور تراکیب ہیں، جتنے کہ جرمنی میں رہنے والے انسانوں کے دیگر مذاہب یا ان سے جڑی ہوئی عام لوگوں کی شناخت۔
کولون کے رہنے والے ایرن گیُووَیرچِن نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی میں مسلمانوں کی اکثریت ترک نژاد ہے اور مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں پر ترکی کے سیاسی اور ثقافتی اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اس کی ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جرمنی میں جوان ہونے والے اکثر مسلمان خود کو ترک مسلم کہلواتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے لیے استعمال کردہ ان الفاظ کے پس پردہ ذہنی اور جذباتی اثرات سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ دوسری طرف ہونا تو یہ چاہیے کہ جو مسلمان جرمنی میں پلا بڑھا ہے، اسے خود کو ’جرمن مسلمان‘ کہلانا چاہیے۔‘‘
ایرن گیُووَیرچِن نے اس حقیقت کا بھی خیر مقدم کیا کہ جرمنی میں وفاقی وزارت داخلہ کی میزبانی میں مسلمانوں کے ساتھ مکالمت کے لیے قائم کردہ ’جرمن اسلام کانفرنس‘ نے بھی اب پروگرام بنایا ہے کہ اس کانفرنس کے اگلے اجلاس میں مسلمانوں کے سرکردہ نمائندوں کی رائے کو شامل کرتے ہوئے ماہرین کی سطح پر اس حوالے سے بھی غور کیا جائے گا کہ ’جرمن اسلام‘ کیا ہے اور ’جرمن مسلم شناخت‘ سے مراد کیا ہے۔
م م / ع ت / ای پی ڈی
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟