1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن معاشرے میں تارکین وطن کا انضمام

28 مئی 2013

جرمن معاشرے میں تارکین وطن کے انضمام کے موضوع پر جرمن چانسلر کی دعوت پر آج جرمن دارالحکومت برلن میں منعقدہ چھٹی انضمام کانفرنس میں مختلف تنظیموں اور انجمنوں نے سیاست، معیشت اور کلیسا کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی۔

تصویر: picture-alliance/dpa

اس کانفرنس میں اس موضوع پر تبادلہء خیال کیا گیا کہ دنیا کے دیگر خطّوں سے نقل مکانی کر کے جرمنی میں آ کر بس جانے والے انسانوں کو کیسے زیادہ بہتر انداز میں جرمن معاشرے کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ صرف سن 2012ء ہی میں ایک ملین سے زیادہ غیر ملکی اپنا اپنا وطن چھوڑ کر جرمنی میں آ کر آباد ہوئے۔ جرمنی میں ایسے شہریوں کی تعداد تقریباً سولہ ملین یا ملکی آبادی کا بیس فیصد ہے، جو غیر ملکی جڑیں رکھتے ہیں۔ ان شہریوں کی 35 فیصد تعداد بے روزگار ہے، جیسا کہ روزگار کی وفاقی جرمن ایجنسی کے تازہ ترین اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے۔

ان افراد کے لیے روزگار اور معاشرے میں ان کا بہتر انضمام آج برلن میں ہونے والی کانفرنس کا موضوع تھا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اقتصادیات فلیپ روئسلر نے تربیت یافتہ غیر ملکی ماہرین کی جرمنی نقل مکانی کے رجحان کو فروغ دینے کی وکالت کی۔ اسی مقصد کے لیے روئسلر نے غیر ملکیوں کو دہری شہریت دینے پر بھی زور دیا، جسے مخلوط حکومت میں شامل بڑی جماعتیں سی ڈی یُو اور سی ایس یُو بدستور رَد کرتی چلی آ رہی ہیں۔

غیر ملکی جڑیں رکھنے والے شہریوں کو دہری شہریت دینے کے حامی وفاقی جرمن وزیر اقتصادیات فلیپ روئسلرتصویر: DW/N. Jolkver

اس کانفرنس کو اس کے انعقاد سے پہلے ہی ہدفِ تنقید بنایا جانے لگا تھا۔ اپوزیشن کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے انضمام سے متعلقہ امور کی مندوب آئیدان اوئیزوگُوز نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ’اس طرح کی کانفرنسوں میں کچھ زیادہ غلط بھی نہیں کہا جاتا لیکن ان سے کچھ حاصل بھی نہیں ہوتا‘۔

اس سال کی کانفرنس کے ایجنڈے میں مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ترک وطن کے پس منظر کے حامل افراد کو کیسے روزگار کی منڈی تک بہتر رسائی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ساتھ ساتھ اُس ’قومی ایکشن پلان‘ کے اب تک کے نتائج کا جائزہ لینا بھی مقصود تھا، جو گزشتہ سال عمل میں لایا گیا تھا۔ گزشتہ سال کی ’انضمام کانفرنس‘ کے شرکاء نے انضمام کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے جرمن زبان اور انضمام کے کورسز سمیت چار سو اقدامات پر اتفاقِ رائے کیا تھا۔

’انضمام کانفرنس‘ منعقد کرنے کا سلسلہ 2006ء میں شروع کیا گیا تھا اور چانسلر انگیلا میرکل کا کہنا ہے کہ اب تک ان اجتماعات سے بہت کچھ حاصل کیا جا چکا ہے۔ اپنے ہفتے وار ویڈیو پیغام میں میرکل نے اس کانفرنس کے بارے میں کہا کہ ’وفاق، صوبوں، بلدیاتی اداروں اور تارکین وطن کی تنظیموں کے مابین مکالمت کے نتیجے میں اب ایسی بہت سی چیزوں کو مرکزی اہمیت دی جانے لگی ہے، جن پر پہلے اتنی زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی‘۔ میرکل نے کہا کہ معاشرے میں پائے جانے والےتعصبات کو مرحلہ وار ختم کیا جانا چاہیے۔

جرمنی میں بے روزگار افراد کی بہت بڑی تعداد کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہے، جو غیر ملکی پس منظر رکھتے ہیںتصویر: picture-alliance/ZB

جرمنی میں ترک کمیونٹی کے چیئرمین کنعان کولات کے مطابق بھی گزشتہ برسوں کے دوران بہت سے منصوبے شروع کیے گئے ہیں تاہم وہ ’انضمام کانفرنس‘ کے بارے میں مایوسی کا شکار ہیں حالانکہ اس کے آغاز کو اُنہوں نے تب ایک تاریخی اقدام قرار دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ بات چیت تو بہت ہی اچھے ماحول میں ہوتی ہے لیکن اس اجتماع میں کوئی ٹھوس فیصلے نہیں کیے جاتے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت ایسے کسی اجتماع میں پیش کی جانے والی تمام ہی تجاویز کو قبول نہیں کر سکتی تاہم اُن کا موقف یہ ہے کہ کم از کم ان تجاویز پر بھرپور بحث مباحثہ تو ہونا ہی چاہیے تاہم وفاقی جرمن حکومت ایسے مطالبات کو مسلسل نظر انداز کرتی رہی ہے۔

کولات کا مطالبہ ہے کہ اس طرح کی ’انضمام کانفرنس‘ میں سیاسی موضوعات پر بھی تبادلہء خیال ہونا چاہیے اور اگلی کسی کانفرنس میں نسل پرستی کو موضوع بنایا جانا چاہیے کیونکہ کولات کے خیال میں جرمنی میں اداروں کی سطح پر نسل پرستی کو فروغ دینے والے ڈھانچے پائے جاتے ہیں۔

اپوزیشن کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاستدان اوئیزوگُوز کے خیال میں بھی اب تک کی ’انضمام کانفرنسوں‘ کےنتیجے میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ قانون سازی کی ٹھوس تجاویز سامنے آئی ہوں۔

N.Conrad/aa/ia

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں