جرمن معیشت ’سنگین ترین بحران‘ کا شکار، صنعتی گروپ
6 دسمبر 2025
جرمن انڈسٹریز فیڈریشن (بی ڈی آئی) کے صدر پیٹر لائبنگر نے کہا، ''یورپ کی سب سے بڑی معیشت بڑے پیمانے پر گراوٹ کا شکار ہے مگر وفاقی حکومت فیصلہ کن اقدامات نہیں کر رہی ہے۔‘‘
جرمنی اس وقت کئی مشکلات سے دوچار ہے۔ صنعت کاروں پر بڑھتی توانائی کی لاگت کا بوجھ، اہم منڈیوں میں جرمن مصنوعات کی کم ہوتی طلب، چین کا صنعتی حریف کے طور پر ابھرنا اور امریکہ کی جانب سے محصولات کا دباؤ۔
ملک گزشتہ دو سال سے کساد بازاری کی لپیٹ میں ہے اور 2025 میں بھی محض معمولی معاشی نمو کی توقع کی جا رہی ہے۔
مئی میں اقتدار سنبھالنے والے کنزرویٹو رہنما میرس نے یورو زون کی اس روایتی مضبوط معیشت کو دوبارہ اٹھانے کا وعدہ کیا ہے، جس میں دفاع اور بنیادی ڈھانچے پر بڑی سرمايہ کاری بھی شامل ہیں۔
تاہم صنعتی رہنما مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں کہ حکومتی کوششیں بہت سست روی سے آگے بڑھ رہی ہیں اور کئی دیرینہ مسائل، جیسے افرادی قوت کی کمی اور پیچیدہ بیوروکریسی، اب بھی غور طلب ہیں۔
لائبنگر کے مطابق، ''معیشت وفاقی جمہوریہ کے قیام کے بعد سے اپنے سنگين ترین بحران سے دوچار ہے، لیکن وفاقی حکومت بھرپور عزم کے ساتھ جواب نہیں دے رہی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''جرمنی کو اب مقابلے کی صلاحیت اور ترقی کے لیے واضح ترجیحات کے ساتھ معاشی پالیسی میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ زوال کو روکنے کے لیے ''فیصلہ کن صلاحات‘‘ فوری طور پر ضروری ہیں۔
’جرمنی اسپیڈ بوٹ نہیں‘
بی ڈی آئی، جو متعدد صنعتوں کی نمائندہ تنظیم ہے، نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں پیشن گوئی کی ہے کہ 2025 میں جرمنی کی فیکٹریوں کی پیداوار میں دو فیصد کمی ہو گی، جو مسلسل چوتھے سال گراوٹ ہے۔‘‘
بھاری صنعتیں، گاڑیوں کی تیاری سے لے کر فیکٹری مشینری اور اسٹیل کی پیداوار تک، اب بھی جرمن معیشت ميں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بی ڈی آئی کے مطابق ملک میں ایک لاکھ سے زائد مختلف سائز کی مینوفیکچرنگ کمپنیاں موجود ہیں جو آٹھ ملین سے زیادہ افراد کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔
تنظیم کی یہ تنقید دیگر اداروں کے خدشات سے بھی ہم آہنگ ہے۔
گزشتہ ہفتے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے کہا تھا کہ میرس کی مجوزہ بڑے پیمانے کی سرکاری اخراجاتی مہم اکیلے معیشت کی مستقل بحالی کے لیے کافی نہیں ہو گی، اور حکومت کو ''ترقی کے فروغ‘‘ کی اصلاحات نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
تاہم امید کی کرن موجود ہے۔ توقع ہے کہ اگلے سال معیشت میں تیزی آنا شروع ہو جائے گی اور حکومت 1.3 فیصد شرحِ نمو کی پیشن گوئی کر رہی ہے۔
میرس نے گزشتہ ہفتے حکومتی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے اپیل کی کہ معیشت کو واپس صحیح سمت میں لانے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
انہوں نے ایمپلائرز ایسوسی ایشن کے ایک پروگرام میں کہا، ''جرمنی کوئی اسپیڈ بوٹ نہیں، جرمنی ایک بہت بڑا جہاز ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''اتنے بڑے جہاز کا رخ چند دنوں میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ایک اسپیڈ بوٹ 180 ڈگری کا فوری موڑ لیتی ہے۔ لیکن بڑے جہاز کو اس میں وقت لگتا ہے۔‘‘
ادارت: عاصم سليم