جرمن معیشت کساد بازاری کاشکار، اقتصادی حجم میں معمولی کمی
25 مئی 2023وفاقی جرمن دفتر شماریات کے جمعرات پچیس مئی کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2023ء کی پہلی سہ ماہی میں 2022ء کی آخری سہ ماہی کے مقابلے میں ملکی معیشت کا حجم تھوڑا سا سکڑ گیا اور اس میں 0.3 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ یوں اقتصادی تکنیکی حوالے سے جرمن معیشت کساد بازاری کا شکار ہو گئی۔
روسی یوکرینی جنگ سے جرمن معیشت کو سو بلین یورو نقصان
اس سے قبل لگائے گئے اندازے یہ تھے کہ سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں ملکی معیشت میں شرح نمو صفر رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ جرمنی کی معیشت کساد بازاری سے بمشکل ہی مگر بچ جاتی۔ تاہم مجموعی اقتصادی پیداوار (جی ڈی پی) میں 0.3 فیصد کی کمی کے ثابت ہو جانے سے اب یہ بات طے ہو گئی ہے کہ یورپی یونین کا اقتصادی طور پر سب سے بڑا ملک جرمنی اب کساد بازاری کے دور میں داخل ہو گیا ہے۔
اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟
وفاقی جرمن دفتر شماریات Destatis کے مطابق اگر قیمتوں میں اضافے اور مختلف عوامل کے معیشت پر قلیل المدتی اثرات کو نظر انداز کر بھی دیا جائے، تو بھی یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ جرمن جی ڈی پی میں اس سال جنوری سے مارچ تک اضافے کے بجائے 0.3 فیصد کی کمی ہوئی۔
یوروزون موسم سرما میں کساد بازاری کا شکار ہو جائے گا
اس سے قبل گزشتہ برس کی چوتھی سہ ماہی میں بھی جرمن معیشت کے سکڑ جانے کا بہت معمولی سا رجحان دیکھنے میں آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی ماہرین اب کساد بازاری کا ذکر کرنے لگے ہیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ سہ ماہی بنیادوں پر اگر مسلسل دو مرتبہ کسی بھی ملک کی معیشت کے حجم میں کمی ہو، تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ملک اقتصادی کساد بازاری کا شکار ہو گیا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر سے دسمبر تک کی سہ ماہی میں جرمن معیشت کے حجم میں 0.5 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔
جرمنی میں اگلے سال سے کساد بازاری، اقتصادی اداروں کی پیش گوئی
افراط زر کے منفی اثرات
جرمن معیشت کو گزشتہ سہ ماہی کے دوران قیمتوں میں اضافے کے مسلسل رجحان کے اثرات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کے منفی اثرات عام جرمن گھرانوں پر بھی پڑے۔ نتیجہ یہ کہ جرمن صارفین نے جتنی اشیائے صرف اس سال کی پہلی سہ ماہی میں خریدیں، ان کے لیے ادا کردہ رقوم 2022ء کی چوتھی سہ ماہی کے مقابلے میں 1.2 فیصد رہیں۔
کورونا وبا: ’جرمنی جتنا نقصان کسی دوسری یورپی معیشت کا نہیں ہوا‘
اس دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ جرمن صارفین نے اشیائے خوراک، مشروبات اور نئے جوتے، ملبوسات اور فرنیچر وغیرہ خریدنے کے لیے بھی کم رقوم خرچ کیں اور ملک بھر میں خریدی جانے والے نئی کاروں کی تعداد بھی کم رہی۔
اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ نئی اور زیادہ ماحول دوست کاریں خریدنے کے لیے حکومت کی طرف سے عام صارفین کے لیے مالی اعانتوں کا سلسلہ بھی گزشتہ سال کے اختتام پر پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بند کر دیا گیا تھا۔
م م / ع ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)